شوکت بلیدی میدانِ عمل کے سرخیل ساتھی تھے، ان کی وفات پارٹی کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔ ترجمان بی این ایم

1

بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے ترجمان نے اپنے بیان میں سابق مرکزی کمیٹی کے رکن شوکت بلیدی کی جلاوطنی میں وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی موت پارٹی کے لیے ایک بڑا صدمہ اور ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ بی این ایم ان کی قومی جدوجہد اور قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے اور انھیں بلوچ تحریکِ آزادی کے مخلص، نڈر اور باوفا کارکن کے طور پر یاد رکھے گی۔

ترجمان نے کہا کہ شوکت بلیدی نے  اپنی تمام زندگی بلوچ قومی تحریکِ آزادی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ وہ جلاوطنی کے دوران 4 اکتوبر 2025 کو بظاہر جگر کی بیماری کے باعث وفات پاگئے۔ جلاوطنی کے دوران انھیں سخت مشکلات اور مصائب کا سامنا رہا۔ قومی سرگرمیوں کے باعث ان پر بیرونِ ملک بھی آئی ایس آئی کے ایجنٹس نے حملے کیے۔مئی 2024 اور اگست 2024 کو ان پر جان لیوا حملے کیے گئے۔ ان حملوں میں ان کے سر ، بائیں اور پیٹھ پر شدید زخم آئے۔ ان کی موت کے حوالے سے بھی شکوک پائے جاتے ہیں کہ انھیں پاکستان نے اپنے ایجنٹس کے ذریعے ممکنہ طور پر سست اثر زہر (سلو پوائزننگ) دیا تھا۔ان کے فعال کردار کی وجہ سے ان کے اہل خانہ کو بھی پاکستانی فوج اور اس سے منسلک خفیہ اداروں کی طرف سے دھمکی آمیز اور ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑا۔

ترجمان کے مطابق شوکت بلیدی کا تعلق میناز، بلیدہ سے تھا۔ بی این ایم کے شہید کارکن الطاف بلیدی ان کے بہنوئی تھے۔ سن 2008 میں شہید  اکبر خان بگٹی کی دوسری برسی کے موقع پر منعقدہ ایک پرامن ریلی کے دوران ریاستی فورسز نے الطاف بلیدی کو شہید کیا۔ اس سانحے نے شوکت بلیدی کو تحریکِ آزادی میں بھرپور اور کلیدی کردار ادا کرنے پر آمادہ کیا۔ انھوں نے متحدہ عرب امارات میں اپنی کاروباری سرگرمیاں ترک  کیں اور وطن واپس آکر خود کو تحریکِ آزادی کے لیے وقف کر دیا۔ ’ کیچ ریجن ‘ میں بی این  ایم کے صدر منتخب ہوئے اور  2010 اور 2014 کے پارٹی کے مرکزی کونسل سیشنز میں انھیں مرکزی کمیٹی کا رکن چنا گیا۔

ترجمان نے ان کی پارٹی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شوکت بلیدی نے پارٹی کے نظریاتی اور ادبی محاذ پر نمایاں کردار ادا کیا۔ انھوں نے ’سنگر پبلی کیشنز‘ کی بنیاد رکھی، ماہنامہ ’سنگر‘ کا اجرا کیا اور متعدد اہم کتب کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ بعد ازاں انھوں نے سنگر پبلی کیشنز کو ڈیجیٹل شکل دی اور آخری دم تک اس ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔انھوں نے بغیر کسی نام و نمود کی خواہش رکھے پارٹی کے فیصلے کی بنیاد پر ایک اجنبی خطے میں رہائش اختیار کی اور گمنامی میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ وہ سخت حالات اور آخری ایام میں بیماری کے باعث کمزور ہونے کے باوجود ہمیشہ بلند حوصلے کے ساتھ کام کرتے رہے۔ ان کے کارنامے پارٹی کے انقلابی جہدکاروں کے لیے مشعل راہ ہیں۔

’’شوکت بلیدی نے میڈیا کے محاذ پر بلوچ اور دیگر محکوم اقوام کے درمیان روابط استوار کیے، جس کے نتیجے میں باہمی تعاون کی فضا بنی اور تحریکِ آزادی کے دائرہ کار میں وسعت پیدا ہوئی۔ جلاوطنی کے دوران انھوں نے پارٹی کے فیصلے کے مطابق میڈیا مینجمنٹ کی ذمہ داریاں نہایت دیانت اور لگن سے نبھائیں۔

ترجمان نے کہا کہ شوکت بلیدی کی جلاوطنی، بیماری، وطن اور عزیزوں سے دوری — یہ سب تحریکِ آزادی کے لیے ان کی قربانیوں کا تسلسل ہیں۔ ان کی شخصیت، جدوجہد اور خدمات پارٹی کے لیے ہمیشہ قابلِ قدر رہیں گی۔ پارٹی کے تمام حلقوں اور اداروں میں ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔ وہ تحریکِ آزادی کے ایک انتھک، مخلص اور باعمل جہدکار تھے، جو اپنے آخری سانسوں تک تحریک آزادی کی کامیابی کے لیے نئے راستے تلاش کرنے اور عمل کا نیا باب رقم کرنے میں مصروف رہے۔ ان کی وفات سے بی این ایم نے ایک ایسے سرخیل ساتھی کو کھویا ہے جنھوں نے میدانِ عمل میں ہمیشہ قیادت، ہمت اور استقامت کی مثال قائم کی۔