بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا ہے کہ ہم پاکستان آرمی چیف کی جانب سے امریکہ کو پسنی میں فوجی اڈہ قائم کرنے کی مبینہ پیشکش پر سخت احتجاج کرتے ہیں، جو بلوچ عوام کی مرضی اور معلومات کے بغیر کی گئی ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ اس سرزمین کے اصل اور جائز مالک ہم بلوچ ہیں، اور ہمارے بغیر ہماری زمین کے متعلق کوئی فیصلہ ناقابلِ قبول ہے۔ ہم ترقی، تجارت اور خوشحالی کے مخالف نہیں، مگر ہر نئے منصوبے اور بندرگاہ نے بلوچستان کے عوام کے لیے مزید پابندیاں، فوجی چوکیاں اور سیکیورٹی زونز میں اضافہ ہی کیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ دہائیوں سے پسنی اور مکران کے ساحلی عوام عسکری دباؤ اور غیر یقینی سیکیورٹی حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہم نے اپنی زمین اور سمندر کو ترقی کے نام پر غیر ملکی طاقتوں کے حوالے ہوتے دیکھا ہے۔ ہر نیا معاہدہ ، چاہے وہ چین کے ساتھ ہو یا اب امریکہ کے ساتھ ، مقامی عوام کی مشاورت، رضامندی اور انصاف کے بغیر کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ جیسا کہ ہم نے ہمیشہ کہا ہے، ہم ترقی کے خلاف نہیں، ہم اس ترقی میں اپنی شناخت مٹانے کے خلاف ہیں۔ ہمارا ساحل کوئی جغرافیائی کھیل کا مہرہ نہیں، بلکہ ہماری تاریخ، شناخت اور وجود ہے۔
صبیحہ بلوچ نے کہاکہ بلوچ عوام کو اعتماد میں لیے بغیر کسی غیر ملکی طاقت کو رسائی دینا جبر میں مزید اضافہ کرے گا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بلوچستان میں بندرگاہیں اور ترقیاتی منصوبے عوام کے لیے مواقع نہیں بلکہ فوجی چوکیوں، نگرانی اور خوف میں اضافہ لاتے ہیں۔ یہاں جب بندرگاہ بنتی ہے تو ساتھ ہی ایک قید خانہ بھی تعمیر ہوتا ہے، جہاں ہمارے لاپتہ افراد کو رکھا، تشدد کیا اور لاوارث لاشوں کی صورت میں پھینکا جاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہم امریکی سفارتخانہ اسلام آباد اور امریکی قونصل خانہ کراچی سے اپیل کرتے ہیں کہ اگر ایسا کوئی فیصلہ پاکستانی فوجی جرنیلوں کے ساتھ کیا گیا ہے تو اس میں شفافیت، عوامی مشاورت اور مقامی آبادی کی حقیقی شمولیت لازمی ہونی چاہیے۔