پاکستانی فوجی قیادت کا امریکہ کو پسنی کے قریب بندر گاہ بنانے کی تجویز

42

پاکستانی فوجی قیادت نے امریکی دورے کے دوران صدر ٹرمپ قریبی حلقوں کو گوادر میں چین کے متبادل نئے بندرہ گاہ کے تعمیری منصوبہ پیش کیا۔

برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر کے قریبی حلقوں کی جانب سے امریکی سرمایہ کاروں کو بلوچستان کے ساحلی علاقے پسنی میں ایک نئے بندرگاہ کی تعمیر کی تجویز دی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 1.2 ارب ڈالر لگایا گیا ہے جس کے تحت بندرگاہ کو بلوچستان کے اندرونی علاقوں میں موجود تانبے اور اینٹمونی کے ذخائر سے ریل رابطے کے ذریعے منسلک کیا جائے گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ تجویز چین کے زیرانتظام گوادر پورٹ کے مقابلے میں امریکہ کو ایک متبادل رسائی دینے کیلئے تیار کی جارہی ہے۔

فنانشل ٹائمز کے مطابق یہ منصوبہ باضابطہ حکومتی پالیسی کا حصہ نہیں بلکہ فوجی حلقوں کی جانب سے امریکی حکام کے ساتھ نجی یا غیررسمی بات چیت میں پیش کیا گیا، ایک سینیئر فوجی عہدیدار نے جریدے کو بتایا کہ جنرل عاصم منیر کے کوئی سرکاری مشیر نہیں، اور بندرگاہ کا یہ تصور ابھی محض ایک تجارتی تجویز ہے جسے آگے بڑھانے کیلئے باقاعدہ عمل درکار ہوگا۔

بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی جو گوادر سے تقریباً 70 میل اور ایران کی سرحد سے 100 میل کے فاصلے پر واقع ہے، کو خطے میں اہم جغرافیائی مقام حاصل ہے۔ تاہم مقامی آبادی عرصہ دراز سے وفاقی حکومت اور فوجی اداروں پر الزام عائد کرتی رہی ہے کہ صوبے کے وسائل پر قابض ہونے کے باوجود مقامی لوگوں کو نہ روزگار دیا جاتا ہے اور نہ ہی بنیادی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔

مقامی سیاسی اور سماجی کارکنوں نے اس ممکنہ منصوبے پر خدشات ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فیصلے خفیہ ملاقاتوں اور بیرونی مفادات کے تحت کیے گئے تو بلوچستان کے عوام ایک بار پھر نظرانداز ہوں گے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پسنی بندرگاہ کی تجویز ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان کو شدید معاشی بحران اور بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ کا سامنا ہے۔

اسلام آباد چاہتا ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات دوبارہ بہتر ہوں اور نئی سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہوں لیکن بلوچ قوم پرست حلقے خبردار کرتے ہیں کہ اس طرح کے منصوبے خطے میں مزید عسکریت، بے دخلی اور جبر کو بڑھا سکتے ہیں۔

اگرچہ اس تجویز پر تاحال کوئی باضابطہ اعلان یا امریکی ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن فنانشل ٹائمز کی رپورٹ نے ایک بار پھر بلوچستان کے وسائل اور ساحلی پٹی پر بین الاقوامی طاقتوں کی نظریں جمانے کے سوال کو اجاگر کردیا ہے