قومی، سیاسی جدوجہد اور جیل، نیلسن منڈیلا سے ماہ رنگ بلوچ تک – ارشاد شمیم

74

قومی، سیاسی جدوجہد اور جیل، نیلسن منڈیلا سے ماہ رنگ بلوچ تک

تحریر: ارشاد شمیم

دی بلوچستان پوسٹ

قومی اور سیاسی جدوجہد کی تاریخ میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا عظیم لوگوں کا کارنامہ رہا ہے۔ نیلسن منڈیلا، جن کی زندگی جنوبی افریقہ میں نسل پرستی (Apartheid) کے خلاف مزاحمت کی سب سے درخشاں مثال ہے، سے لے کر پاکستان میں حقوق اور جبر کے خلاف جدوجہد کرنے والی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ تک، جیل نہ صرف ایک سزا گاہ بلکہ ایک مزاحمتی دانش گاہ کے طور پر بھی سامنے آتی ہے۔

نیلسن منڈیلا کی جدوجہد کا محور جنوبی افریقہ کا نسل پرستانہ نظام تھا، جس نے سیاہ فام اکثریت کو تمام سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق سے محروم کر رکھا تھا۔ منڈیلا کی قیادت میں افریقن نیشنل کانگریس (ANC) نے پہلے عدم تشدد اور پھر جبری حالات میں مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ 1964ء میں ری وونیا مقدمے (Rivonia Trial) میں انہیں تخریب کاری اور حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

منڈیلا نے اپنی زندگی کے 27 سال (1964ء سے 1990ء تک) جیل میں گزارے، جن میں سے زیادہ تر عرصہ کیپ ٹاؤن کے قریب خوفناک روبن آئی لینڈ (Robben Island) کی بدنام زمانہ جیل میں گزرا۔ روبن آئی لینڈ اپنی غیر انسانی مشقت اور مکمل تنہائی کے لیے مشہور تھی، لیکن منڈیلا نے اسے ایک تعلیمی اور نظریاتی مرکز بنا دیا۔ وہ خود بھی پڑھتے رہے اور اپنے ساتھی قیدیوں کو بھی تعلیم دی۔ ان کے رفقاءِ زندان میں والٹر سیسولو (Walter Sisulu) اور احمد کٹھراڈا (Ahmed Kathrada) جیسے اہم رہنما شامل تھے، جنہوں نے جیل کی چار دیواری کے اندر ہی ANC کی قیادت اور حکمت عملی کو برقرار رکھا۔

جیل کی سختیاں منڈیلا کے عزم کو نہیں توڑ سکیں، بلکہ ان کی روحانی اور سیاسی پختگی کا باعث بنیں۔ ان کی قید کی کہانی ایک قومی جدوجہد کی علامت بن گئی، جس نے عالمی سطح پر نسل پرستی کے خلاف تحریک کو ہوا دی۔ ان کی رہائی، 1990ء میں، جنوبی افریقہ میں جمہوری تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی، جس کے بعد وہ 1994ء میں ملک کے پہلے جمہوری صدر منتخب ہوئے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی جدوجہد کا تعلق ایک مختلف سیاق و سباق سے ہے۔ وہ بنیادی طور پر پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں (Enforced Disappearances) اور ریاستی زیادتیوں کے خلاف احتجاجی تحریک کی ایک اہم شخصیت ہیں۔ یہ جدوجہد قومی حقوق، سیاسی خودمختاری اور انسانی حقوق کی پاس داری کے گرد گھومتی ہے۔ ماہ رنگ خود بھی ان مظالم کا شکار ہوئی ہیں، ان کے والد غفار بلوچ کو 16 سال پہلے دو دفع جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا، جبکہ دوسری دفع لاپتہ کرنے کے بعد ان کی مسخ شدہ لاش پھینک دی گئی۔

ماہ رنگ بلوچ نے مزاحمت کا راستہ بنیادی طور پر سول نافرمانی، طویل احتجاجی مارچز (Long Marches) اور پرامن سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے اپنایا ہے۔ ان کی جدوجہد کو ملک کے اندر اور باہر، مزاحمتی سیاست کا ایک نئی نسل کا بیانیہ سمجھا جاتا ہے۔

منڈیلا کی طرح وہ بھی قید کا سامنا کر چکی ہیں۔ انہیں نہ صرف اپنی سیاسی سرگرمیوں کے دوران متعدد بار حراست میں لیا گیا بلکہ ریاستی دباؤ اور ہراسانی کا بھی مستقل سامنا رہا ہے۔ ان کی حراست اور ان کے ساتھی کارکنان کی قیدیں حکومتی جبر کے باوجود ان کے عزم کو تقویت دیتی رہی ہیں۔

ماہ رنگ بلوچ کے رفقاء زندان اور ہم فکر ساتھیوں میں سمیع دین بلوچ، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، ایڈوکیٹ نادیہ بلوچ، حوران بلوچ، شاہ جی صبغت اللہ، بیبو بلوچ، گل زادی بلوچ اور دیگر خواتین و حضرات شامل ہیں، جنہوں نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (VBMP) اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) جیسے پلیٹ فارمز کے تحت جدوجہد کو جاری رکھا ہے۔ ان کا جیل جانا یا حراست میں لیے جانا محض ایک فرد کی قید نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ساتھ ہی پسماندہ طبقات کی آواز کو دبانے کی کوشش کا مظہر ہوتا ہے۔ ان کی جدوجہد کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ایک عصری ڈیجیٹل دور کی مزاحمت ہے، جہاں جیل، احتجاجی کیمپ اور سوشل میڈیا سب جدوجہد کے میدان ہیں۔

منڈیلا اور ماہ رنگ بلوچ کے درمیان بنیادی فکری مماثلت یہ ہے کہ دونوں نے ایک ایسے طاقت ور ریاستی ڈھانچے کے خلاف آواز اٹھائی جو اپنے ہی شہریوں پر ظلم کر رہا تھا۔ منڈیلا کی مزاحمت نسل پرستی کے خلاف تھی، جو جلد ہی ایک جمہوری ریاست میں بدل گئی، جبکہ ماہ رنگ کی مزاحمت سیاسی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف ہے، جس کا مقصد ایک منصفانہ نظام کا قیام ہے۔

قید خانہ دونوں کے لیے سیاسی آزمائش کا میدان رہا ہے۔ منڈیلا کے لیے جیل ایک نظریاتی تربیت گاہ بنی، جہاں سے انہوں نے جنوبی افریقہ کی نئی قیادت تیار کی اور دنیا کو بدلنے کا عزم کیا۔ ماہ رنگ بلوچ کے لیے حراست اور اس سے جڑے خوف کے سائے، ان کی جدوجہد کی صداقت اور قربانی کا ثبوت ہیں۔ دونوں نے جیل سے باہر نکل کر، یا اس کے سائے میں، مزاحمت کی کہانی کو ایک نئی جہت دی ہے۔

سیاسی قید محض ایک سزا نہیں ہوتی بلکہ یہ اکثر جدوجہد کی صداقت اور نظریاتی طاقت کا سب سے بڑا ثبوت ہوتی ہے۔ یہ قیدیں مزاحمت کرنے والوں کو عارضی طور پر الگ تھلگ کر سکتی ہیں، لیکن ان کے نظریے کو مزید پختہ اور تحریک کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔ قومی اور سیاسی جدوجہد کی تاریخ میں یہ مشاہیر ایک لازمی اصول کو ثابت کرتے ہیں کہ جب طاقت جبر پر اتر آئے تو قربانی اور استقامت ہی تبدیلی کا واحد راستہ بنتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔