سینٹرل جیل گڈانی کی ڈائری
بلوچستان میں یاجوج ماجوج
تحریر: چیئرمین عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
چھٹی صدی قبل مسیح میں مغربی ایشیا کا تمام علاقہ منگولین نسل کے سیتھین قبائل کے حملوں سے غارت ہو رہا تھا۔ انہی منگولین نسل کے سیتھین قبائل کو قدیم کتاب اور مذہبی کتابوں میں یاجوج ماجوج کہہ کر پکارا گیا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے مطابق قرآن مجید کے سورہ کهف میں جن یاجوج ماجوج کا ذکر آیا ہے وہ یہی منگولین نسل ہے۔ بحر خزر اور بحر اسود کا علاقہ ان وحشی اور خونخوار قوم کا مرکز بن چکا تھا۔ یہ وحشی قوم وہشت کی قدرتی ہمجیت اور درندگی سے لڑھتے سرد علاقے کی صحرائی زندگی اور وحشیانہ خصائل کی خشونت نے انھیں وقت کی شاہستہ اقوام کے لئے ایک خوفناک ہستی بنا دیا تھا۔ یہ وسط ایشیا سے لیکر بحر اسود کے شمالی کناروں تک آباد تھے اور اطراف وجوانب میں برابر حملہ آور ہوتے رہتے تھے۔ جب کبھی موقع پاتے قرب و جوار کی آبادیاں غارت کرتے۔ یہ قتل و غارت کا ایک ایسا منظم سیلاب تھا جسے دنیا کی کوئی انسانی قوت روک نہیں سکتی تھی۔ ان کی شب و روز کی زندگی منگولین کے باد رفتار گھوڑوں کی پیٹھ پر بسر ہوتی تھی۔ اور سو سو میل تک بغیر دم لیے چلے جاتے تھے۔
جب ان کے حملے اسلامی ملکوں میں گرے تو ان کی برق رفتاری کا یہ حال تھا کہ ایک شہر کی تباہی کی خبر دوسرے شہر تک پہنچنے نہیں پاتی تھی کہ وہ خود اس کے دروازے پر نمودار ہوجاتے تھے۔ لیکن یہ کبھی جم کر ٹک نہیں سکتے تھے اور نہ علاقے فتح کرکے اپنے قبضے میں رکھ سکتے تھے۔ مگر جب کبھی صدیوں بعد ان میں سے کوئی حکمران قائد پیدا ہوجاتا اور وہ بہت سے قبائل کو متحد کرکے ایک فوج کی نوعیت دے دیتا تو پھر قتل و غارت گری کا ایک ایسی منظم طاقت پیدا ہوجاتی جو صرف وقتی حملوں پر قانع نہیں رہتی بلکہ ممالکتوں اور قوموں پر قابض ہوجاتی اور شہری آبادیوں کی بڑی قوتیں بھی اس کی راہ نہیں روک سکتیں۔ ان میں چنگیز خان اپنی مثال آپ ہے۔
قرآن مجید کے سورہ کہف میں پھر ذوالقرنین کا ذکر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، “ذوالقرنین میرا چرواہا ہوگا اور میں نے اسے اس لئے پکارا ہے کہ بنی اسرائیل کو بابلیوں کے ظلم سے نجات دلائے” نیز اسے “خدا کا مسیح” بھی کہا ہے۔
ذوالقرنین نے ایک دیوار تعمیر کرکے یاجوج ماجوج کی راہیں مسدود کردی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت یاجوج ماجوج کا حملہ ایک خاص راہ سے ہوتا تھا، دوسری راہیں ان پر نہیں کھلی تھیں لہٰذا ذوالقرنین نے دیوار تعمیر کرکے اسے بند کردیا اور صدیوں تک کے لیے ملک محفوظ ہوگیا۔ جس طرح تین صدیوں بعد شہنشاہ چین شین شیہ ھوانگ تی (Ch’in Shih Huang Ti) نے حملوں کو روکنے کے لیے وہ عظیم الشان دیوار تعمیر کی جو دیوارِ چین کے نام سے مشہور ہے۔ یہ دیوار پندرہ سو میل تک چلی گئی ہے۔ اس کی تعمیر 214 قبل مسیح میں شروع ہوئی اور دس برس میں ختم ہوئی۔ اس نے شمال اور مغرب کی طرف سے منگولین قبائل کے حملوں کی تمام راہیں مسدود کردی تھیں۔ اس لیے ان کا رخ پھر وسط ایشیا کی طرف مڑ گیا۔
مولانا ابوالکلام آزاد قرآن مجید کی تفسیر بیان کرکے اپنی تحقیق سے ایران کے عظیم شہنشاہ سائرس کو قرآن مجید کے سورہ کہف کا ذوالقرنین ثابت کرتے ہیں۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ ایران کے آخری مید بلوچ حکمران استیاگس (آستیا غوث) نے اپنی بیٹی ماندین جسے یونانی مورخین میندانے تحریر کرتے ہیں کی شادی آریائی ہخامنشی سردار کمبی سس (کمبوجیہ) سے کر دی۔ اس کے بطن سے سائرس نے جنم لیا، جس نے بعد میں اپنے نانا استیاگس کو گرفتار کرکے تخت پر قبضہ کر لیا۔ اس بغاوت میں استیاگس کے افواج کے سپہ سالار ہارپیگ (ہارپاگس) جو آرمینیائی النسل تھا، نے دیگر بلوچ قبائل کے ساتھ مل کر سائرس کا ساتھ دیا، ورنہ تخت پر ان کا قبضہ ناممکن تھا۔ سائرس اپنے دور حکمرانی میں ایک عظیم حکمران ثابت ہوا۔ اس نے کرمان، لیڈیا (آرمینیا اور ترقی)، بابل اور چین تک فتوحات کے جھنڈے گاڑے اور مکران کا بھی کافی حصہ اس کے زیر اثر آیا۔ سائرس کا اصل نام گورش تھا جنھیں یونانیوں نے سائرس کے نام سے پکارا۔ اسی طرح عبرانیوں نے خورش اور عربوں نے قوروش اور خیار شایا، کیار شایا کے خسرو کے نام سے پکارا۔
ذوالقرنین یعنی سائرس نے یاجوج ماجوج کا راستہ روکنے کے لیے جو ایک دیوار تعمیر کی تھی، اس دیوار میں اب شگاف آچکا ہے۔ بلوچستان کی جانب سے ایک درہ کھل چکا ہے، یاجوج ماجوج اس سے نکل کر بلوچستان میں داخل ہوچکے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ان میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں، اب یہ نئے رنگ ڈنگ اور بوٹ سوٹ میں دکھائی دیتے ہیں، لیکن نسل و کردار وہی ہیں۔ وہ یاجوج ماجوج دیہاتوں اور شہروں کو لوٹتے تھے اور یہ موجودہ یاجوج ماجوج دیہاتوں اور شہروں کے ساتھ ساتھ زیر زمین قدرتی وسائل اور سمندری وسائل کو بھی لوٹتے ہیں۔ وہ مال مویشی لوٹنے کے ساتھ وہاں کے رہنے والوں کو قتل کرتے تھے اور یہ مال مویشی لوٹنے کے ساتھ قتل عام بھی کرتے ہیں اور بہت سوں کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور پھر انھیں اذیتیں دے دے کر قتل کرکے ایک ایک کرکے ان کی لاشیں پھینک دیتے ہیں۔ وہ عورتوں کی عصمت دری کرتے تھے اور یہ انہیں راستوں پر گھسیٹ گھسیٹ کر ان کی عزت پامال کرتے ہیں۔ وہ آگ لگا کر دیہاتوں اور شہروں کو جلا دیتے تھے اور یہ بمباری کرکے گاوں کے گاوں اور شہروں کے شہر کو ملیامیٹ کردیتے ہیں۔
وہ بچوں کو اپنے ساتھ لے جا کر غلام بنا دیتے تھے اور یہ بچوں کو ان کی ماں کی آنکھوں کے سامنے بے دردی سے گولیوں سے چھلنی کردیتے ہیں۔ وہ لوٹ مار کے بعد وہاں نہیں ٹکتے تھے اور یہ ٹک کر ہی لوٹ مار کر رہے ہیں۔ وہ لوگوں پر تلوار و نیزے چلاتے تھے اور یہ لوگوں پر گولیاں اور توپیں چلاتے ہیں۔ وہ وحشی تھے ان میں انسانیت نہیں تھی اور یہ پڑھے لکھے ہیں، بوٹ سوٹ میں ہیں ان میں بھی انسانیت نہیں ہے۔ ان کا مشغلہ لوٹ مار، قتل و غارت گری کا تھا اور ان کا مشغلہ سیاست و کاروبار کرنا بھی ہے اور لوٹ مار، قتل و غارت گری بھی کرتے ہیں۔ وہ غیر مہذب و وحشی تھے ہر مذہب کے لوگوں کو مارتے تھے اور یہ دکھاوے میں مہذب و شہری لگتے ہیں، مسلمان بھی ہیں لیکن ہر مسلمان کو مارتے ہیں۔ انھیں عرف عام میں وحشی و درندے کہتے تھے، وہ منگولین تھے اور انھیں عرف عام میں پاک فوج کہتے ہیں۔ یہ پاکستانی ہیں لیکن ان کا کردار و عمل ناپاک ہے۔ وہ صدیوں قبل مختلف ممالک پر وارد ہوئے اور یہ 1948 کو بلوچستان میں وارد ہوئے۔ اُن کا اب نام و نشان نہیں ہے لیکن یہ اب بھی یہی ہیں۔
اُن یاجوج ماجوج کا راستہ روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو بھیجا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں وارد ہونے والے یاجوج ماجوج کے لیے کون آئے گا؟
لگتا نہیں کہ ان کے لیے اللہ پاک کسی ذوالقرنین کو بھیجے گا۔ اب بلوچ کو خود ذوالقرنین بن کر ایک دیوار تعمیر کرنی ہوگی تاکہ آئندہ یہ اپنا رخ بلوچ سرزمین کی جانب نہ کریں۔ اور وہ دیوار بلوچ کی یکجہتی، اتحاد و یگانگت ہے جس کے بل بوتے پر بلوچ ان ظالم و جابر یاجوج ماجوجوں کا مقابلہ کرسکتا ہے اپنی سرزمین، ساحل و وسائل کی دفاع و تحفظ کو یقینی بنا سکتا ہے۔ بصورت دیگر یہ یاجوج ماجوج ہمیشہ بلوچ کو لقمہ اجل بناتے رہیں گے۔ بلوچ یا تو متحد و منظم ہو کر ان کا مقابلہ کریں یا ان کے ہاتھوں مرتے رہیں، یہ بلوچ پر منحصر ہے کہ وہ اتحاد و اتفاق کو ترجیح دیتا ہے یا غلامی اور مرنے پر خوش رہنا چاہتا ہے۔ بلوچستان کے جو موجودہ حالات ہیں اس سے زیادہ ابتر تو نہیں ہوں گے۔ ہر بلوچ گھر ان کے ظلم، جبر و ناانصافیوں کا شکار ہے ہر گھر میں ماتم ہے۔
ایک ماں کا لخت جگر تو ایک بہن کا بھائی، ایک عورت کا شوہر تو ایک بچے کا والد اور ایک کا اپنا و پیارا لاپتہ ہے۔ ان کو ایسی چوٹ لگائی گئی ہے جس کے درد کا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ ان لاپتہ افراد کے لواحقین انصاف کی تلاش میں سرگرداں عدالتوں کے چکر لگا کر تھک چکے ہیں، لیکن یہ انصاف ہے کہ نہیں ملتا۔ لگتا ہے عدالت و انصاف بھی لاپتہ ہوچکے ہیں۔ پھر تنگ آ کر روڈوں پر، پریس کلبوں کے سامنے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کرتے ہیں تو انھیں شدید تشدد سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کی آواز ملکی سطح پر نہ بین الاقوامی سطح پر سنی جاتی ہے۔ لگتا ہے ان کے سننے والے کان بھی لاپتہ ہوچکے ہیں۔ اور انسانی حقوق کے علمبردار ایسے ماورائے عدالت عمل کے خلاف کوئی خاص کردار ادا کررہے ہیں، لگتا ہے یہ بھی لاپتہ ہوچکے ہیں۔
بلوچستان کے تیل، گیس و دیگر وسائل سے جن وحدتوں کے گھروں کے چھولے اور ایندھن چل رہے ہیں، ان کی تعمیر و ترقی ہو رہی ہے، کالجز و یونیورسٹیاں بنائی جارہی ہیں، لیکن افسوس بلوچستان کے وسائل سے چلنے والے ان وحدتوں کے عوام کے لبوں پر بلوچ عوام پر ہونے والی ظلم و زیادتیوں کے خلاف دو چار مذمتی الفاظ بھی نہیں نکلتے۔ لگتا ہے وہ بھی لاپتہ ہوچکے ہیں۔ اس کے برعکس ان پر کئے گئے ہر ظلم کے خلاف بلوچ نے بحیثیت ایک قوم دوست، انسان دوست ہمیشہ آواز بلند کی ہے۔ بلوچستان میں آئے روز لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں۔ عورتوں کو روڈوں پر گھسیٹا جا رہا ہے، ان کی تذلیل کی جا رہی ہے اور یہ سب کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کہا جاتا ہے، لیکن اس میں اسلامی روایت کو پاؤں تلے روندا جاتا ہے۔ جمہوریت میں آمریت ہے، پاک نام پر ناپاک حرکتیں ہوتی ہیں، پھر بھی یہ دیش اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے۔ بلوچستان میں اظہار رائے پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے، پرامن جمہوری جدوجہد پر قدغن ہے جس کی وجہ سے نوجوان کسی اور راہ کا انتخاب کر رہے ہیں۔ جس طرح اپنی روانی کے لیے راہ نہ پانے کی صورت میں ندی نالے جب چڑھنے لگتے ہیں تو سب رکاوٹوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں، اسی طرح بڑھتے ہوئے جذبات بھی اپنے اخراج کے لیے موزوں صورت تلاش کر لیتے ہیں۔ جب متاع لوح و قلم چھین لیا جائے اور لب اظہار پر تالے لگا دیئے جائیں، اگر جذبات کا اظہار نہ ہو سکے تو ہر طرف مرگ ناگہانی کا آسیب منڈلانے لگتا ہے۔ لیکن یہ حاکم وقت کو کون سمجھائے؟
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مرجائے گا
بلوچ انسانیت دوستی کے ترقی پسندانہ فکر کا حامی ہے، ترقی پسندانہ قوم پرستی پر یقین رکھتا ہے اور تشدد سے پرہیز اور پرامن جمہوری جدوجہد کر رہا ہے۔ لیکن پرامن جمہوری و سیاسی جدوجہد کا راستہ روکنے کے لیے ریاست کی جانب سے طاقت کا جو بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے، دراصل بلوچ کو کسی اور راہ پر بھیجنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑے گا۔ حقوق پر قدغن، جدوجہد پر قدغن، وسائل کی لوٹ مار، ساحل کی لوٹ مار، تعمیر و ترقی لاپتہ، لوگ لاپتہ تو پھر ان قدغن، لوٹ مار اور لاپتہ پر آواز بلند ہوگی۔ جمہوری و سیاسی مزاحمت ہوگی۔ مزاحمت تو بلوچ کی روح میں ہے، اسے طاقت و قوت سے ختم کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس مزاحمت کو جمہوری و سیاسی ہی رہنے دیا جائے، مسلح نہ بنایا جائے جس کے نتائج انتہائی خطرناک نکلیں گے اور نکل بھی رہے ہیں۔
یاستی یاجوج ماجوج میں تہذیب، روایات و اخلاقیات نام کی کوئی شے نہیں ہے اور حقیقتًا یہ وہی یاجوج ماجوج ہیں جو اس صدی میں کسی اور روپ میں نکل کر یہاں وارد ہوئے ہیں اور بلوچ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں۔
اب بلوچ اتحاد ناگزیر ہے، گو کہ اس کام خیر میں رکاوٹ بہت ہیں۔ سرکار کے پالے ہوئے نام نہاد قبائلی سردار، پارلیمانی جماعتوں کے لیڈران جو بلوچی زبان منہ میں رکھ کر بلوچی پوشاک میں ملبوس ہیں، درحقیقت چند مراعات و مفادات کی خاطر بلوچ اتحاد میں ہمیشہ رکاوٹ ڈال کر اپنی دھرتی ماں کا سودا کرکے اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کا کردار ادا کرتے آرہے ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ اپنی قوم کے خیرخواہ بننے کا ناٹک کرتے ہیں اور قوم و سرزمین کے نام پر پارٹیاں بناتے ضرور ہیں لیکن حقیقت میں ان کا کام اپنی قوم کو غلامی کے لیے تیار رکھنے، ان کو ڈرانے اور اپنے آقاؤں سے ملنے والی چھوٹی موٹی مراعات کے عوض غلامی کی زنجیریں پہنے رکھنے کا تقاضہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ اپنی محکوم قوم سے کہتے ہیں کہ دشمن بہت طاقتور ہے، ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لیے پارلیمنٹ میں مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
یہ جناب سمجھتے ہیں کہ ہمیں صرف پیٹ بھر روٹی چاہیے؟ لیکن ہم انہیں بتا دیں کہ ایسا نہیں ہے، ان لوگوں کو جو ہماری پیٹھ پر سوار ہیں اور جنھوں نے ہماری آنکھیں بند کر رکھی ہیں، ہم انہیں بتا دینا چاہتے ہیں کہ ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں نہ تو ہم بیوقوف ہیں اور نہ جانور کہ ہمیں پیٹ بھرنے کے علاوہ اور کچھ چاہیے ہی نہیں۔
ہم اپنی سرزمین، ساحل و وسائل پر اپنی حاکمیت چاہتے ہیں جو ہمارا ہے۔ ہم ایسی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں جو انسانوں کے شایان شان ہو۔ ہم اپنے دشمنوں پر یہ ثابت کردینا چاہتے ہیں کہ غلامی کی زندگی جو انھوں نے ہم پر مسلط کر رکھی ہے، ہم ہر اعتبار سے ان کے برابر ہی نہیں بلکہ ان سے ارفع و اعلیٰ ہیں۔ ہم نے نہ غلامی قبول کی ہے نہ کریں گے۔
یہ پارلیمانی جناب پچھلے ستتر (77) سالوں سے قومی مسئلے کا حل پارلیمان میں ڈھونڈ رہے ہیں، کیا انھیں مل سکا؟ بالکل نہیں۔ پارلیمان میں 18 ویں ترمیم سمیت کئی قراردادیں پیش ہوئی اور کئی منظوری بھی ہوئیں لیکن قومی استحصال جوں کا توں بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔
بلوچستان میں پاکستان کا کردار نیم سامراجی طاقت کا ہے جو بڑی سامراجی طاقتوں کے لیے بلوچستان کا استحصال کرنے کا ڈھانچہ بھی فراہم کرتا ہے اور گماشتوں کی طرح کچھ منافع خود بھی کماتا ہے۔ بلوچستان کی معدنیات، بندرگاہ یا وسائل کے حوالے سے ہونے والے معاہدوں پر اگر روشنی ڈالی جائے تو نظر آئے گا کہ 50 سے زائد فیصد منافع غیر ملکی کمپنیاں کماتی ہیں تو 25 فیصد سے زائد وفاقی حکومت و ادارے اور بلوچستان کے حصے میں آنے والے 25 فیصد بھی بلوچستان میں نہیں آتے بلکہ وفاقی اور باہر کی کمپنیاں اور ٹھیکدار لے جاتے ہیں۔ چین، امریکہ، کینیڈا، یورپ، آسٹریلیا، پاکستان سارے سامراجی سرمائے کے لیے بلوچستان کے استحصال میں معاونت فراہم کر رہے ہیں اور اس طفیل خود بھی منافع کما رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اپنی مکمل گرفت قائم رکھنے کے لیے ایک جانب بلوچستان کو چھاونی میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور عوامی آواز کو دبانے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کر کے جبر و استبداد کی تمام حدیں پار کر چکا ہے، دوسری جانب بلوچستان کے قبائلی سرداروں اور پارلیمانی پارٹیوں کے ذریعے بلوچ کی مزاحمتی روح کو فنا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے کبھی بھی بلوچ کی وحدت اور اتحاد و یکجہتی پر سنجیدگی نہیں دکھائی تاکہ بلوچ وحدت اسی طرح پرا پارا رہے اور ان کی کرسیاں اور وزارتیں قائم رہیں اور ان کے خزانے بھرے رہیں۔ پوری دنیا میں یہ طبقات قومی غدار اور سوداگروں کی صورت میں نظر آئے ہیں۔
ایک جانب ان لوگوں کی دشمن سے وفاداری اور اپنی قوم سے غداری اور دوسری جانب بلوچ کی خانہ جنگی، برادر کشی نے بلوچ کو شدید نقصانات سے دوچار کر دیا ہے۔ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بلوچ اتحاد و یکجہتی کی فضا قائم ہو کر بلوچ کی طاقت و قوت اکھٹی ہو کر اپنی سرزمین، ساحل و وسائل کی دفاع و تحفظ کر سکے۔
س قومی کاز کے لیے حقیقی سیاسی رہنماؤں و کارکنوں، طلباء تنظیموں، دانشوروں، قلم کاروں، ادیبوں اور وطن دوستوں کو اپنا فعال و بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ قومی غداروں کو بے نقاب کرکے خانہ جنگی (آپسی جنگ و جدل) کے قومی نقصانات سے پوری قوم کو آگاہ کرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں ایسے قومی جرم و نقصانات سے قوم کو بچایا جا سکے۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاو گے بلوچستان والوں
تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔