زہری میں فوجی آپریشن: بھاری ہتھیاروں اور ہیلی کاپٹروں کا استعمال، شہریوں کی ہلاکتیں و متعدد گرفتار، مکمل کرفیو نافذ

391

پاکستانی فورسز نے پیش قدمی کے دوران درجنوں شہریوں کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا، علاقے میں تین روز کرفیو کا اعلان، شہری محصور

بلوچستان کے ضلع زہری گذشتہ پندرہ روز سے پاکستانی فورسز کی آپریشن کا سامنا کررہی ہے۔ جہاں بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کے کنٹرول کے بعد پاکستانی فورسز بڑی تعداد میں علاقے میں آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔

رواں سال 11 اگست کے بعد سے بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں نے زہری میں داخل ہو کر علاقے کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پاکستانی فورسز کو چار مہلک حملوں کا نشانہ بنایا تھا، جبکہ ان حملوں کی ذمہ داری بلوچ آزادی پسندوں کے اتحاد براس نے قبول کرتے ہوئے 37 اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا اعلان کیا تھا۔

پاکستانی فورسز نے 15 ستمبر کو فضائی حملے میں ایک گھر کو نشانہ بنایا تھا جس میں پندرانی قبیلے کے تین افراد جانبحق ہوئیں جبکہ دو روز بعد 17 ستمبر کو ایک ڈرون حملے میں دو خواتین سمیت چار افراد جانبحق اور ایک بچے سمیت پانچ افراد زخمی ہوگئے تھے۔

تراسانی کے قریب پاکستانی ڈرون حملے کا نشانہ بننے والوں میں 40 سالہ بی بی آمنہ زوجہ ثناء اللہ، 41 سالہ لال بی بی زوجہ علی اکبر، اور 30 سالہ محمد حسن ولد محمد، جبکہ زخمیوں میں 45 سالہ ثناء اللہ ولد غلام رسول، علی اکبر ولد عبدالحکیم، 38 سالہ عبدالنبی ولد محمد یعقوب، 4 سالہ عمیر احمد ولد غلام رسول اور 65 سالہ مولا بخش ولد منڈاؤ شامل ہیں۔

پاکستانی فورسز نے ڈورن حملے کا نشانہ بننے والے ثناء اللہ کو بعد ازاں حراست میں لیکر زخمی حالت میں خضدار کینٹ منتقل کردیا تھا۔

ادھر مقامی ذرائع نے دی بلوچستان سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ فضائی حملوں کے بعد 27 ستمبر کو پاکستانی فورسز نے بڑی تعداد میں زہری میں پیش قدمی کی جبکہ اس دوران انجیرہ کے قریب بلوچ لبریشن آرمی کے حملے میں مزید 15 اہلکاروں کے ہلاکت کے بعد فضائی حملے تیز کردئیے۔

یکم اکتوبر کو فوج کی جانب سے نورگامہ کے علاقے میں ڈرون حملہ کیا گیا ہے جس میں چار افراد جانبحق ہوئے ہیں۔ علاقائی ذرائع کے مطابق جانبحق ہونے والے عام افراد تھے جو کپاس فصلوں کے قریب بیٹھے ہوئے تھے کہ ڈرون حملے کا نشانہ بنیں۔

ذرائع کے مطابق ابتک اطلاعات کے مطابق گیارہ کے قریب افراد ڈرون حملوں میں جانبحق اور متعدد زخمی ہیں جبکہ جانبحق ہونے والوں میں ایک چرواہا اور ایک طالب علم بھی شامل ہے۔

مقامی لوگوں نے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا کہ زہری میں اس وقت کرفیو لگائی جاچکی ہے جبکہ پاکستانی فورسز کی اس وقت بھاری تعداد زہری بازار سمیت قریبی علاقوں میں ٹینکوں کے ذریعے پیش قدمی کررہے ہیں۔

بلوچ آزادی پسند تنظیمیں جو علاقے میں موجود ہیں تاہم پاکستانی فورسز کے ساتھ کسی بھی تازہ تصادم کی تصدیق نہیں کی ہے، جبکہ مختلف ذرائع سے ویڈیوز اور تصاویر کے ذریعے اپنی موجودگی کا اعلان کررہے ہیں۔

ذرائع نے پاکستانی فورسز کی جانب سے تازہ پیش قدمی کے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا ہے کہ 27 ستمبر کے پیش قدمی کے دوران پاکستانی فورسز نے گزان کے قریب گھروں کا محاصرہ کیا جبکہ اس دوران مختلف علاقوں میں لوگوں پر تشدد کرکے گھروں کو ٹینکوں کے ذریعے مسماری اور لوگوں کی جبری گمشدگیوں کے اطلاعات ملی ہیں۔

فورسز کی جانب سے کرفیو کے بعد زہری کے داخلی و خارجی راستوں کو سیل کردیا گیا جبکہ مقامی لوگ کرفیو کے باعث سیکیورٹی کی غیرمعمولی صورتحال نے شہری زندگی کو مفلوج کردیا ہے۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے زہری میں فوجی آپریشن کی تصدیق کرتے ہوئے بلوچ آزادی پسندوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے سمیت متعدد بلوچ آزادی پسند جنگجووں کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے، تاہم ان کے شناخت کے حوالے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ کو ذرائع موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق جھڑپوں میں آزادی پسندوں کو بھی جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم ان کی تعداد تاحال معلوم نہیں ہوسکی ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ زہری میں گزشتہ دو ہفتوں سے جاری فوجی آپریشن کے دوران عام شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بمباری اور گولہ باری میں عام شہریوں کی شہادت کی اطلاعات ہیں جن میں دو معمر خواتین بھی شامل ہیں، جبکہ بے شمار خاندان بے گھر اور خوف و دہشت کا شکار ہیں۔ گھروں، کھڑی فصلوں، پانی کے ذرائع اور سولر سسٹمز کو تباہ کیا جا رہا ہے، جس سے مقامی آبادی کی بقا خطرے میں ڈال دی گئی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ واقعات انفرادی نہیں بلکہ منظم انسانی حقوق کی پامالی اور جنگی جرائم کی عکاسی کرتے ہیں۔