بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ زہری میں گزشتہ دو ہفتوں سے جاری فوجی آپریشن کے دوران عام شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بمباری اور گولہ باری میں عام شہریوں کی شہادت کی اطلاعات ہیں جن میں دو معمر خواتین بھی شامل ہیں، جبکہ بے شمار خاندان بے گھر اور خوف و دہشت کا شکار ہیں۔ گھروں، کھڑی فصلوں، پانی کے ذرائع اور سولر سسٹمز کو تباہ کیا جا رہا ہے، جس سے مقامی آبادی کی بقا خطرے میں ڈال دی گئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ پورے علاقے کو محاصرے میں لے کر تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء، پانی اور ادویات کی فراہمی روک دی گئی ہے، اسپتال ڈاکٹروں اور بنیادی علاج سے محروم ہیں، اور انٹرنیٹ و مواصلاتی نیٹ ورکس بھی معطل ہیں۔ گزشتہ رات کرفیو نافذ کیا گیا، جبکہ گھروں میں چھاپوں کے دوران خواتین، بچوں اور بزرگوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ واقعات انفرادی نہیں بلکہ منظم انسانی حقوق کی پامالی اور جنگی جرائم کی عکاسی کرتے ہیں۔
ترجمان نے کہاکہ میڈیا پر مکمل بلیک آؤٹ نافذ ہے اور امدادی سرگرمیوں تک رسائی روک دی گئی ہے تاکہ حقائق چھپائے جا سکیں۔ یہ عمل ناقابلِ برداشت ہے۔ عام شہریوں کو نشانہ بنانا، بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا بین الاقوامی انسانی و انسانی حقوق کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
بیان میں کہا ہے کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ زہری میں بجلی، خوراک، علاج اور مواصلاتی سہولیات فوری بحال کی جائیں۔ عام شہریوں اور ان کی املاک پر حملے فی الفور بند کیے جائیں۔ میڈیا، انسانی حقوق کے نمائندوں اور امدادی اداروں کو آزادانہ رسائی دی جائے۔ انسانی حقوق کی پامالیوں اور جنگی جرائم کی شفاف تحقیقات کر کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے۔
بیان کے آخر میں کہا ہے کہ زہری اس وقت ہنگامی انسانی صورتحال کا شکار ہے۔ ہم اقوامِ متحدہ، بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور امدادی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ فوری مداخلت کریں، شہریوں کی جان و مال کی حفاظت یقینی بنائیں اور ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے۔