شہیدِ ڈغار کی سیاسی سنجیدگی – ارشاد شمیم

37

شہیدِ ڈغار کی سیاسی سنجیدگی

تحریر: ارشاد شمیم

دی بلوچستان پوسٹ

اپنے کسی ہم عصر سے سیاسی و فکری اختلافات رکھنے کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہوتا کہ یہ اختلافات ذاتی نفرت میں تبدیل ہو جائیں۔ شہیدِ ڈغار زبیر بلوچ کے ساتھ میرے کافی اختلافات تھے، اور اکثر میں ان سے یہی کہتا تھا کہ نیشنل پارٹی آپ کا اصل سیاسی اور فکری مستقر نہیں ہے۔ آپ اس پارٹی میں اپنی صلاحیتوں اور وقت کو بری طرح ضائع کر رہے ہیں۔ بطور بی ایس او پجار (BSO Pajjar) کے چیئرمین آپ کو نیشنل پارٹی کو بلوچ قوم پرست اور بلوچ دوست سیاسی پارٹی تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیشنل پارٹی پارلیمانی سیاست، اقتدار اور ذاتی مراعات جیسے نشوں کی لت میں مبتلا لوگوں کا گروہ ہے، اس کی سیاسی اور جمہوری حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے۔

وہ یقیناً ایک بڑے عہدے پر فائز آدمی تھے، بی ایس او پجار کے چیئرمین زبیر جان کے لیے میری یہ باتیں لمحہ بھر کو ضرور ناگوار گزرتی تھیں، لیکن پھر بھی وہ ایک پختہ سیاسی رہنما کی طرح میرے اس دوٹوک مؤقف کو بہت ہی تحمل و بردباری سے سنتے، نہ صرف سنتے بلکہ اچھی خاصی مکالمہ بازی بھی کرتے تھے۔ یہی وہ سیاسی سنجیدگی اور مکالمہ کی فکری فضا تھی جو زبیر بلوچ کو عام سیاست دانوں سے ممتاز کرتی تھی۔ وہ ایک طالب علم رہنما تھے جو محض نعرے بازی کی بجائے نظریاتی گہرائی میں اترنا جانتے تھے۔

چیئرمین شپ کے بعد زبیر جان نے نیشنل پارٹی میں شمولیت کی غیر سنجیدہ روایت سے بغاوت کی، اور بقول ڈاکٹر نسیم بلوچ زبیر جان نے بی این ایم (بلوچ نیشنل موومنٹ) کی قیادت سے رابطہ کر کے ان کے ساتھ بھرپور نظریاتی وابستگی قائم کر لی، اور اس عہد وفاداری کو اپنی شہادت تک نبھاتے رہے۔

یہ فیصلہ زبیر بلوچ کی سیاسی بصیرت کا عکاس ہے کہ انہوں نے پارلیمانی سیاست کے “آسان اور مراعات یافتہ” راستے کے بجائے، جدوجہد اور نظریاتی استقامت کے مشکل راستے کا انتخاب کیا۔ انہوں نے اپنی فکری اساس کو ترجیح دی اور اس پارٹی کے ساتھ جڑ گئے جو ان کے سیاسی شعور کے مطابق بلوچ قوم کے حقوق کے لیے زیادہ جرات مندانہ اور غیر سمجھوتہ کن موقف رکھتی تھی۔ اس وفاداری پر ان کی سیاسی شخصیت یقیناً لائقِ صد تحسین ہے۔

بی این ایم ایک ایسی سیاسی پارٹی ہے جو بی این پی اور این پی سے سیاسی بصیرت اور جمہوری فکر میں کہیں آگے ہے، بی این ایم کو مذکورہ دونوں پارٹیوں پر واضح برتری حاصل ہے۔ یہی وہ سیاسی جماعت ہے جس سے بلوچ عوام کی سیاسی انقلاب کی امیدیں وابستہ ہیں، اس جماعت کی جدوجہد اور اس سے وابستہ سیاسی مجاہدین کی کوششیں اہلِ فکر و عقل سے ذرا بھی پوشیدہ نہیں ہیں۔

شہید زبیر بلوچ کی فکری پختگی یہ تھی کہ انہوں نے سیاسی عمل کو ذاتی کامیابی سے بالاتر رکھا۔ ان کا فکری سفر صرف ایک پارٹی کی تبدیلی نہیں تھا، بلکہ یہ روایتی، پارلیمانی قوم پرستی سے نکل کر ایک انقلابی، اصول پسند اور غیر سمجھوتہ کن سیاسی فکر کی طرف سفر تھا۔ یہ تبدیلی ایک ایسے ماحول میں ہوئی جہاں بی این ایم جیسی جماعت سے وابستگی کا مطلب ذاتی تحفظ کو داؤ پر لگانا تھا۔ زبیر بلوچ نے آسانیوں اور سہولیات کو رد کر کے، نظریے کے خاطر مشکلات کو گلے لگایا۔ ان کے اس فیصلے نے بلوچ نوجوانوں کو یہ پیغام دیا کہ حقیقی قیادت جدوجہد میں ہوتی ہے، نہ کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں۔

شہید زبیر بلوچ کی سیاسی سیرت لوحِ تاریخ پر یہی عکاسی کرتی ہے کہ بلوچستان کی سیاست میں فکری دیانت اور نظریے کے ساتھ وابستگی ہی سب سے بڑی طاقت ہے۔ ان کی زندگی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ایک سچا سیاسی کارکن اپنے سیاسی مسکن کا انتخاب مراعات یا مفادات کی بنیاد پر نہیں بلکہ نظریاتی یکجہتی اور جدوجہد کے اخلاص کی بنیاد پر کرتا ہے۔ ان کی شہادت، ان کے اس پختہ نظریاتی کمٹمنٹ کی آخری اور سب سے بڑی گواہی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔