جمعیت علما اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سینیٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے دالبندین میں ایڈووکیٹ زبیر بلوچ کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ “بلوچستان جل رہا ہے۔ پہلے حکومت کی رٹ کوئٹہ کے اندر صرف پانچ کلومیٹر تک محدود تھی، اب وہ بھی سکڑ گئی ہے۔ کوئٹہ شہر کے باہر کوئی بھی شخص ناکہ لگا سکتا ہے۔
سینیٹر نے اس بات پر زور دیا کہ گھروں کے اندر خواتین کو قتل کیا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں بلوچ اور پشتون عوام ریاست کو پھولوں کے ہار نہیں پہنائیں گے۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے مزید کہا کہ بلوچستان کی سڑکیں سفر کے قابل نہیں رہیں جبکہ ہوائی سفر کا کرایہ بھی بڑھ چکا ہے اور حکومت حالات کو بہتر بنانے میں ناکام ہے۔
انہوں نے وکلا کے خلاف بڑھتی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وکیلوں کو لاپتہ کیا جا رہا ہے؛ “اگر کوئی وکیل واقعی مجرم ہے تو چیف جسٹس کو آگاہ کیا جائے۔
خیال رہے چند روز قبل بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے انٹر پارٹی الیکشن کے موقع پر سابق وزیراعلیٰ و سابق اسپیکر جان محمد جمالی نے کہا تھا کہ بلوچستان کی شاہراہیں ہمارے لیے محفوظ نہیں رہیں، اس لیے وہ اور کئی دیگر سیاستدان راستوں کے ذریعے سفر کرنے سے قاصر ہیں۔
انہوں نے خطاب میں دعویٰ کیا کہ حالات اتنے کشیدہ ہیں کہ کوئی وزیر بائے روڈ سفر کرنے کے قابل نہیں رہتا اور بعض رہنماؤں کو مخصوص اضلاع سے گزرنے میں خوف محسوس ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ ایک سال کے دورانیہ میں بلوچستان کی بڑی شاہراہوں پر بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کا اثر و رسوخ بڑھ چکا ہے۔ شاہراؤں پر ناکہ لگا کر چیکنگ کرنا روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ ہورہے ہیں جبکہ لیویز و پولیس چوکیوں کو کنٹرول میں لیکر ہتھیاروں کو ضبط کرنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔
بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے زہری، منگچر، سوراب، مستونگ جیسے شہروں پر منصوبہ بندی کے تحت کنٹرول حاصل کرنے کے واقعات بھی رواں سال رپورٹ ہوچکے ہیں۔
مزید برآں خضدار کا تحصیل زہری اگست کے مہینے سے بلوچ آزادی پسندوں کے کنٹرول میں ہے۔ گذشتہ ایک ہفتے سے زہری میں فورسز پیش قدمی کی کوشش کررہے ہیں۔