شہادت تک فلسفہ بلوچ، قومی آزادی پر قائم و دائم کامریڈ گنجل – کامریڈ قاضی

66

شہادت تک فلسفہ بلوچ قومی آزادی پر قائم و دائم کامریڈ گنجل

تحریر: کامریڈ قاضی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قومی تحریک میں بی ایس او کی بڑی کردار رہی ہے۔ بی ایس او نے اس جنگ میں ایسے نظریاتی اور مخلص ساتھی دیے جو اس جنگ کے قاعدہ اور بانی بنے، اس جنگ کے تانے بانے بنیں۔ آج اگر بلوچ مسلح جدوجہد اس کامیابی کی سیڑھی تک پہنچ چکا ہے وہ اُن ساتھیوں کی حوصلہ، ایمانداری اور قربانی کی وجہ سے ہیں۔ بلوچستان میں شہید اور کامریڈ بہت ہیں، ان شہداء کی فہرست میں لیاری سے تعلق رکھنے والے کامریڈ گنجل مزار بھی ہیں۔ وہ ایک فدائی اور ایک بہادر سپاہی تھے۔ 24 ستمبر 2021 وہ دن تھا کہ خاران اور نوشکی کی پہاڑی سلسلے سوماری میں سیاہ لوپ کے مقام میں بلوچ سرمچاروں کی دشمن فوج کے ساتھ ایک زبردست لڑائی لڑی گئی ہے۔ اس لڑائی میں دشمن کو شدید مشکلات اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی دشمن کمانڈو اور فوجی مارے جاتے ہیں۔ اس طویل لڑائی میں پانچ بلوچ فرزند اپنے مادر وطن بلوچستان کے لیے شہید ہوتے ہیں، ان میں سے ایک شہید کامریڈ گنجل عرف مزار بھی تھے۔ پھر بی ایل اے نے شہید گنجل مزار اور دوسرے ساتھیوں کو سلام پیش کیا اور ایک مضبوط اور منظم فدائی آپریشن آپ کے نام کیا۔

شہید گنجل کا بنیادی تعلق سرگوات، لیاری سے تھا۔ شہید نے ایسے وقت میں سیاست کا آغاز کیا جب لیاری میں گینگ واروں کا راج تھا۔ ہر دن لیاری میں ایک نوجوان کی بوری بند لاش کسی کچرہ خانے یا ویران گلی میں ملتی تھی اور نوجوان نشے کی زندگی میں مبتلا ہو رہے تھے۔ ساتھ ساتھ ریاست کی اس سازش میں بہت سے نوجوان گینگ وار میں شامل ہو رہے تھے۔ مگر بی ایس او کی کامیاب کاموں اور ساتھیوں کی قربانی سے گنجل متاثر ہو کر تنظیم میں شامل ہوئے۔ ایک مصنف (داد بلوچ) لکھتے ہیں کہ کامریڈ گنجل جس کا اعتراف کئی بار دوستوں کے سامنے کر چکے ہیں کہ اگر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد نہ ہوتا تو میں آوارہ گردی کرتا یا کسی گینگ میں شامل ہوجاتا۔

گنجل نے بی ایس او کی پلیٹ میں نوجوانوں کی بہت تربیت کی اور ان کی رہنمائی کرتے رہیں۔ دوہزار پندرہ میں شہید بی ایس او کے مرکزی ممبر بنے۔ یہ وہ وقت تھا کہ بی ایس او پر ریاستی کریک ڈاؤن لگایا گیا تھا۔ تنظیم کے مرکز سے لے کر ممبر تک سب ریاستی جبر کے سامنا کر رہے تھے۔ ہر دن ریاست چھاپہ مار رہی تھی تو گنجل نے بہادری سے اُن حالات کا سامنا کیا۔ وہ ہر کام اور فیصلہ میں پیش پیش تھے۔ دوہزار اٹھارہ میں بی ایس او سے فارغ ہو کر بلوچ مسلح تنظیم بی ایل اے میں شامل ہوئے اور قلیل مدت میں اپنی جنگی و سیاسی صلاحیتوں کے بدولت بی ایل اے میں ایک اہم مقام حاصل کیا اور اہم امور کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اپنی صلاحیتوں اور مخلصی کی وجہ سے بی ایل اے کے علاقائی کمانڈر تعینات ہوئے اور آخری دم تک اپنی ذمہ داری ایمانداری اور مخلصی سے نبھاتے رہیں۔

شہید گنجل کو دوہزار پندرہ سے پہلے دیکھا تھا۔ اس وقت وہ بی ایس او آزاد میں تھے۔ وہ میرے کسی رشتہ دار کے گھر آئے ہوئے تھے۔ میں مزار جان کو نہیں جانتا تھا مگر میرا ایک عادت تھا کہ میں ہر کسی سے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔ سردیوں کا موسم اور بارش بھی ہو رہی تھی۔ ایک شام میں نے اس کے ساتھ باتیں کیں۔ میں تو اس وقت نو دس سال کا تھا تو کوئی سیاسی بات تو نہیں ہوئی مگر کچھ ایسی۔ وہ ایک خوش مزاج اور دوستانہ شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ہر کسی کے ساتھ مخلصی اور بہترین انداز سے ملتے تھے چاہے وہ کوئی بھی ہو۔

وہ ایک باشعور اور ایک پختہ سیاسی ورکر تھے۔ وہ ایک بہادر اور نڈر سرمچار تھے۔ اس کی قربانی ہمارے لیے مشعل راہ ہے جو ہمیں جنگ، مزاحمت، توکل اور آزادی کی طرف توجہ دلاتا ہے اور اس کی قربانی ہمیں ہمیشہ اس راہ میں رہنمائی کرتی رہے گی کہ دشمن کے سامنے سلنڈر کے بجائے شہادت کو ترجیح دینی ہے۔ اس کی قربانی ہمیں غلامی کی ناپاک زنجیروں کو توڑنے اور ایک آزاد وطن کی جانب گامزن کرتی ہے۔ وہ فینن کی طرح تھے کہ غلامی کی لعنت پر امن سے ختم نہیں ہوتی بلکہ بندوق سے دور ہو جاتی ہے۔ وہ چے گویرا کی طرح جنگ میں ایمانداری سے لڑنے والے ایک کمانڈر تھے۔ وہ اس سامراج کی حکمت عملی کو ناکام بنانے والے سپاہی تھے۔ وہ دشمن کے لیے علی جیسا بہادر اور ذوالفقار جیسا کاٹدار تلوار تھے۔

وہ لیاری میں قتل ہونے والے ماؤں کے شہزادوں کا بدلہ تھے جو ریاست نے گینگ واروں اور ایجنسیوں کے ہاتھوں قتل کروائے تھے۔ وہ بی ایس او کے ان نظریاتی ساتھیوں میں سے تھے جنہوں نے مادر وطن کے لیے سر پر کفن باندھا تھا۔ وہ لیاری میں ذہنے والے ان بلوچوں کو خواب غفلت سے جگانے والے ایک پیغمبر تھے جو ریاست نے نشے آماج زندگی میں مبتلا کیے تھے اور ان کے جو اجتماعی ہونے کے بجائے اپنی انفرادی زندگی کے قیدی تھے زہنی و نفسیاتی مریض تھے۔ وہ ریاست پاکستان کی پیشانی میں ایک سیاہ علامت تھے۔ وہ دشمن کے نیند کو خراب کرنے والے ایک خطرناک اور گونجتی ہوئی آواز تھے۔ وہ سمندر کی سونامی جیسے خطرناک سپاہی تھے جو دشمن کی مضبوط فصیلوں اور قلعوں کو ایک دم سے خاک میں ملا دیتے تھے۔ وہ نوشکی اور پنجگور کے فدائین کی ہمت اور شان تھے۔ وہ فدائی حملے سے پہلے شہید ہوئے مگر ان کی سوچ اور نظریہ نے دشمن کو جنجھوڑ کر روک دیا۔

کامریڈ گنجل 24 ستمبر کو دائمی بلوچ قومی تحریک اور تاریخ میں امر ہو گیا۔ اس کی قربانی ہمیشہ کے لیے بلوچ تاریخ میں لکھی گئی۔ وہ ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوئے مگر نظریہ اور مقصد کی تکمیل تک رہنمائی کرتے رہیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔