ایک جہد، ایک انقلاب ایک تحریک کا نام قاضی بلوچ – طفیل بلوچ

116

ایک جہد، ایک انقلاب ایک تحریک کا نام قاضی بلوچ

تحریر: طفیل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

عبدالباسط زہری عرف قاضی 1981 کو خضدار کے تحصیل زہری کلی سلمانجو میں حاجی محمد رمضان کے گھر پیدا ہوا۔ باسط ایک نام نہیں تھا وہ ایک جہد اور ایک انقلابی تحریک کا نام ہے۔ خاموشی میں ڈھکا ہوا ایک ایک ایسا شور کہ آج پورے خضدار کے ساتھ بلوچستان کے کونے کونے میں قاضی نے اپنے نظریے کو نوجوانوں کے سپرد کر دیا ہے۔

قاضی اپنے سکول لائف سے ہی بہت خاموش دوست تھا۔ جو بہت کم بولتا تھا لیکن استاد کے لیکچر کو سننے کے بعد جو سوال اٹھتا تھا۔ قاضی کے اس سوال میں اس کے اندر کا شعور جھلکتا تھا۔ اس سنگت میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بہت گہری تھا۔

قاضی جب بی آر سی خضدار میں پڑھتا تھا تو میں نے قاضی کو اپنے باقی دوستوں سے بہت الگ پایا۔ وہ سب سے منفرد تھا۔ بی آر جی خضدار میں ہاؤسز بنائے گئے تھے جن کو مختلف نام دیے گئے تھے۔ گرین، یلو، ریڈ۔ تو ان میں یلو ہاؤس قاضی کا تھا۔ تو قاضی نے اپنے ہاؤس کو مختلف بنانے کے لیے سب لڑکوں سے پیسے اکٹھے کیے اور یلو رنگ کے وردی بنوائے اپنے ہاؤس کے لڑکوں کے لیے۔ اس قاضی کے لڑکوں کے ہاؤس کے جتنے بھی ممبرز تھے وہ پورے بی آر سی کالج میں الگ تھے۔ میں آج بھی کہتا ہوں کہ قاضی میں سوچنے، سمجھنے کی مکمل صلاحیت رکھتا تھا۔
میں اس وقت دنگ رہ گیا جب مجھے پتہ چلا کہ عبدالباسط زہری نے بی ایل اے میں شمولیت کر لی ہے۔ قاضی اس تحریک کا وہ سپاہی تھا جس نے اپنے قومی جدوجہد کا آغاز کسی سیاسی پارٹی سے نہیں کیا بلکہ بالواسطہ مسلح تنظیم کا حصہ بن گیا۔ قاضی بہت ہی پختہ اور مسلح تنظیم کے تکنیکوں کو سمجھنے والا ایک باصلاحیت جنگجو تھا۔ ہم تمام ساتھیوں کا گمان ہی نہیں تھا کہ اس قدر خاموشی کے ساتھ اپنے قومی خدمات کو سر انجام دیتے ہوئے اس بلندی تک پہنچ چکا ہے۔

جب 2009 اور 2013 کے دوران اس ریاست کے بنائے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ کے غداروں پر حملے شروع ہونے لگے اور انہیں موت کے گھاٹ اتارتے گئے تو بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر نے اپنے جہدکار اور گوریلا سپاہیوں کو کہا کہ جو حملے خضدار میں دشمن پر ہو رہے ہیں وہی حملے یہاں دشمن پر کر کے آؤ اور اس وقت خضدار کو ہلا کے رکھنے والا کوئی اور نہیں جھالاوان کا نرمزار عبدالباسط عرف قاضی تھا۔

تحریک کے اعلیٰ کمانڈر قاضی کو استاد اسلم کا دست راست کہا کرتے ہیں۔ بقول قاضی، لیڈر وہ ہوتا ہے جو پورے معاشرے کو جنجھوڑ کے رکھ دے، پورے معاشرے کو ایسا ہلا کے رکھ دے کہ پوری قوم متحرک ہو۔ بقول قاضی کہ جب میں اپنی جدوجہد کا اس تحریک کا حصہ بنا تو سب سے پہلے میری ماں مجھے پہچان گئی کہ میں ایک بلوچ قومی سپاہی ہوں۔ سمیع بلوچ اس قومی جدوجہد، اس تحریک میں قاضی کا سب سے قریبی ساتھی تھا۔ قاضی اکثر کہتا تھا کہ جتنے کم لوگ آپ کو جانیں گے اتنا ہی زیادہ آپ کام کر سکیں گے۔ قاضی اپنے فیصلوں پر ایک اٹل رہنے والا ایک جنگجو کمانڈر تھا۔

اس جنگ میں اس دشمن ریاست نے اس کے خون کے رشتوں کو ایک ایک کر کے شہید کرتا رہا۔ عبدالمجید زہری قاضی کا سب سے چھوٹا بھائی جسے اس ریاست نے شہید کر دیا۔ عبدالحئی بھی قاضی سے چھوٹا بھائی نہیں بلکہ قاضی کا نظریاتی سنگت اور ایسا سنگت شاید ہی اس کی مثال تاریخ میں کم ملے۔ قاضی اور اس کا چھوٹا بھائی عبدالحئی جب اکٹھے ہوتے تھے تو ان نظریاتی سنگتوں کا فکر صرف جہد تھا۔ ان سنگتوں میں سے ایک پہرہ دیتا دوسرا سو جاتا۔

اس دشمن ریاست نے قاضی کے والد محمد رمضان کو شہید کر دیا۔ اس کٹھن اور تکلیف دہ راستے، اس جہد میں قاضی نے اپنے ایک سے بڑھ کے ایک رشتہ دار کو کھویا ہے۔ ان سب کے باوجود ان کا ایک ہی فیصلہ جو وہ لے چکا تھا وہ اپنے آخری گولی کے فلسفے پر قائم تھا۔
اس ظالم ریاست نے قاضی کو اس کے کئی خاندان کے اراکین کے ذریعے ان پیشکشیں بھیجتا رہا۔ لیکن قاضی وہ جنگجو تھا، ایک اعلیٰ ظرف اور اپنے فیصلوں پر اٹل رہنے والا کہ اس ریاست کے ہر پیشکش کو ٹھکراتا رہا۔ اس نے قومی جدوجہد اپنی سرزمین پر خود کو قربان کرنا اپنا اولین فرض بنا لیا تھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔