بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بہن نادیہ بلوچ نے اسلام آباد میں اپنے دھرنے اور اس کے اختتام کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کل ہم نے گزشتہ 74 دن سے جاری اپنے پرامن احتجاج کو اسلام آباد میں ختم کر دیا۔ یقیناً جب ہم احتجاج کے لیے جارہے تھے تو دل میں کئی سوچیں گردش کر رہی تھیں۔ ہمیں بالکل بھی یہ امید نہیں تھی کہ پاکستانی ریاست ہماری بات سنے گی، کیونکہ ہم سے پہلے بھی بلوچوں نے کئی مرتبہ یہ کوششیں کی تھیں، مگر اسلام آباد ہمیشہ واضح کرتا آیا ہے کہ بلوچوں کو اس ملک میں غلاموں جیسا سمجھا جاتا ہے اور وہ ہمیں انصاف فراہم نہیں کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود ہم نے جانے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے جانے کا مقصد اسلام آباد کو یہ باور کرانا تھا کہ ماہ رنگ اکیلی نہیں ہے، جسے جیل کر کے بلوچ قوم سے جدوجہد کا حق چھین لیا جائے یا بلوچ قوم کو زیر کر لیا جائے۔ ماہ رنگ اور دیگر بی وائی سی کے ساتھیوں کو نظر بند کرنے کا بنیادی مقصد یہ خوف پیدا کرنا تھا کہ کوئی آواز نہ اٹھائے اور بلوچ اپنے حقوق اور جدوجہد سے دستبردار ہو جائیں۔ لیکن اسلام آباد میں ان سختیوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی ہم نے گزشتہ 74 دن تک احتجاجی دھرنا دے کر واضح کر دیا کہ ہم کسی بھی حالت میں خاموش نہیں رہیں گے۔ ہماری جدوجہد خاموش نہیں رہے گی اور جب تک ریاستی تشدد جاری رہے گا، بلوچ جدوجہد اور ان ماؤں کی پرامن جدوجہد کو کوئی روک نہیں پائے گا، جب تک اسلام آباد کے مظالم جاری رہیں گے، بلوچ قومی جدوجہد جاری رہے گی۔
نادیہ بلوچ نے کہا کہ اسلام آباد ہمیں یہ احساس دلوانا کبھی نہیں چھوڑتا کہ وہ ہمیں کیا سمجھتے ہیں۔ اس دوران وہ ہمیں مسلسل دھمکاتے رہے، ہمیں پولیس اور ایجنسیوں کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی، مگر ان ماؤں اور بہنوں کی جرات کو سلام کہ وہ ریاستی ہتھکنڈوں کے سامنے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹیں، ان کی بہادری نے واضح کر دیا کہ ہم اپنی جدوجہد سے کسی بھی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایک وکیل کی حیثیت سے مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان میں آئین و قانون کی کیا حیثیت ہے اور یہاں آئین و قانون کے ساتھ کس طرح مذاق کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود مسئلے کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے ہم نے اپنا احتجاج اسلام آباد درج کروایا تاکہ دنیا پر واضح ہو سکے کہ بلوچستان میں پاکستانی ریاست کیا کر رہی ہے، ریاست کا بلوچ قوم کے ساتھ رویہ کیسا ہے اور بلوچ قوم کو کس حد تک نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہم یہاں دنیا کے سامنے اسلام آباد کے مظالم کو اجاگر کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے اور ہم اس میں کامیاب رہے۔
نادیہ بلوچ نے مزید کہ اکہ جب ہم اسلام آباد پہنچے تو مذاکرات کے بجائے ہمارا استقبال پولیس کی دھونس و دھمکیوں، احتجاج کے حق سے محرومی اور جبر و ناانصافی کے ساتھ ہوا۔ ہمیں دو مرتبہ لاٹھی چارج کا سامنا کرنا پڑا، ہمیں گالیاں دی گئیں، ہمارے خلاف غلیظ پروپیگنڈا کیا گیا اور ہمیں بار بار اپنی غلامانہ حیثیت کا احساس دلایا گیا۔ ہمیں پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی اور جب ہم نے کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں مزید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جہاں ہم نے کرائے کے گھر لیے تھے وہاں سے ہمیں رات کے وقت نکال دیا گیا؛ لوگوں کو دھمکی دی گئی کہ انہیں کرائے کے کمرے نہ دیے جائیں۔ اس کے علاوہ وکیل ایمان مزاری اور علی ہادی جو ان تمام مشکلات میں ہمارے ساتھ ڈٹے رہے، انہیں ریاستی اداروں کی جانب سے مسلسل ہراساں کیا گیا۔ یقیناً یہ دردناک اور اذیت ناک لمحات ہیں جن میں ہمیں بار بار یہ احساس دلاتا ہے کہ ہم اس ملک کے شہری نہیں ہیں اور بلوچ قوم کو مسلسل دیوار سے لگا دیا جاتا ہے۔
نادیہ بلوچ نے کہا کہ یہ فیصلہ ہم تاریخ پر چھوڑتے ہیں کہ وہ ہمیں کہاں تک لے جاتی ہے، مگر ہم اپنی تحریک اور جدوجہد ہر صورت جاری رکھیں گے۔ میری بہن نے مجھے یہی سکھایا ہے کہ انصاف کی تلاش اور حقوق کے حصول کی جدوجہد ایک طویل اور کٹھن سفر ہے۔ ہم اسلام آباد سے تو چلے ضرور گئے ہیں، مگر ہماری جدوجہد یہاں ختم نہیں ہوئی وہ جاری ہے۔