فدائی رشید بزدار، کوہِ سلیمان کا انمول ہیرا – مزار بلوچ

47

فدائی رشید بزدار، کوہِ سلیمان کا انمول ہیرا

تحریر: مزار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

حوصلے چلتن سے بلند، قومی شعور سے لیس، ہنستا مسکراتا خوبرو چہرہ، سادہ طبیعت، آتشی جذبہ، فولادی سوچ، مادر وطن کی عزت و حرمت کے لیے سر بکف سپاہی، شہید فدائی رشید بزدار عرف میرل، جو ڈیرہ غازی خان سے آ کر نوشکی کے پہاڑوں میں شجاعت و بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کر کے وطن پر قربان ہوئے۔ میرل ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک نظریہ تھا، ایک نہ تھمنے والا فکر تھا۔

شہید فدائی رشید بزدار ڈی جی خان کوہِ سلیمان کے آغوش میں جوان ہوئے، وہ زمانہ طالب علمی سے ہی ایک باشعور، ذہین اور خودار شخصیت کے مالک تھے، وطن پرستی، وفا شعاری اور جہدِ مسلسل ان کی رگ رگ میں شامل تھی۔ وہ شہداء بلوچستان کی عظیم قربانیوں سے بے حد متاثر تھے اور یہی وہ جذبہ تھا جس نے رشید کو میرل بنایا اور میرل نے اپنے خون کے آخری قطرے اور اپنی بندوق کی آخری گولی تک وطن سے کیے ہوئے وعدے کو نبھایا۔

میرل ایک پختہ نظریہ اور فکر کے ساتھ بلوچ جدوجہد آزادی کے مسکن بولان کے پہاڑوں میں جب آئے تو بہت جلد ہی اپنی جدید جنگی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دشمن کو ایڑیاں رگڑنے پر مجبور کیا، میرل اپنی فولادی سوچ، جنگی تکنیک اور بہادری کے ساتھ جدید دور کے عین تقاضوں کے مطابق میدانِ جنگ میں اترتے، وہ ساتھی سرمچاروں کے لیے باعثِ حوصلہ اور دشمن کے لیے بربادی کی علامت تھے۔

فدائی رشید، ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھتے تھے، یہ وہ علاقہ ہے جس کی تاریخ وطن پرستی اور مزاحمت سے لکھی گئی ہے، یہاں کے بلوچوں نے ہر دور میں قبضہ گیروں کے خلاف غیرتمندی سے لڑی ہے اور انہیں یہ پیغام دیا ہے کہ بلوچ اپنی عزت و آبرو اور وطن کے لیے ہمہ وقت مرنے مٹنے کو تیار ہیں۔ کوہِ سلیمان کی تاریخ سے انقلاب کی خوشبو آتی ہے کیونکہ یہاں شہداء نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر سرزمین کی حفاظت کی ہے۔

فدائی رشید طلبہ سیاست اور سماجی فلاح و بہبود کی تنظیموں سے بھی وابستہ رہے تھے، جب انہیں قومی غلامی اور قابض کے ظلم و ستم کے خاتمے کا واحد حل مسلح جنگ میں نظر آیا تو وہ بی ایل اے کے پلیٹ فارم سے منسلک ہوکر عملی طور پر اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ میرل نے تین سال مادر وطن کی دفاع میں گزارے، اس دوران ان کے حوصلے کبھی بھی پست نہیں ہوئے اور نہ ہی کبھی وہ کمزور پڑے بلکہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح اپنے نظریے پر ڈٹے رہے اور شہادت کے عظیم ترین منصب پر براجمان ہوئے، میرل نے کوہِ سلیمان کی تاریخ اور بلوچ روایات کو اپنی لہو کی بوندوں سے زندہ کر دیا۔

فدائی میرل، مجید برگیڈ کے جان نثار فدائیوں کی قربانیوں اور بہادری سے بے حد متاثر تھے اور اکثر وہ فدائی دوستوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ یہ وہی ہستیاں ہیں جنہوں نے ہماری آزادی کی جنگ کو ایک نئی رخ دی ہے اور ہماری منزل کو انتہائی آسان بنا دیا ہے، میرل نے بلوچ فدائیوں کی فکری پختگی اور دیدہ دلیری سے متاثر ہو کر مجید برگیڈ کے کاروان کا حصہ بنے اور فدائی کا کردار لیے مزاحمت کی تاریخ میں تا ابد زندہ رہنے کا شرف حاصل کیا۔

بولان کے پہاڑ فدائی میرل کی بہادری اور مخلصی کی گواہی دیتے ہیں کہ آپریشن درہِ بولان اور آپریشن ہیروف میں میرل نے بہادری کے وہ نقوش چھوڑے جو ہر بلوچ سرمچار کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ سارو کی بلند و بالا چوٹیاں میرل کی دانشمندی اور فکری پختگی پر ناز کرتی ہیں، بزرگ کے دل چھو لینے والے خوبصورت نظارے میرل کی جدائی پر افسردہ نظر آتے ہیں، نوشکی کے پہاڑوں میں میرل کے دشمن کو دیے ہوئے للکار کی آواز آج بھی گونج رہی ہے۔ میرل جیسے عظیم کردار کے ساتھ وقت گزارنا مجھ سمیت ہر سرمچار ساتھی کے لیے باعثِ اعزاز و سعادت ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔