زبیر ایک زمین زاد
تحریر: کامریڈ کازی
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں شہیدوں کی فہرست دن بہ دن طویل ہوتی جا رہی ہے۔ ہر روز ایک زمین زاد اپنے مادر خاک کے لیے شہید ہوتا ہے مگر پھر بھی مزاحمت سے بلوچ فرزند پیچھے نہیں ہٹ سکتے، جان ان کی کیوں نہ جائے۔ بلوچ فرزندوں نے اس بات کو اپنے ذہن نشین کر لیا ہے کہ بس مزاحمت ہی زندگی ہے۔ ان شہیدوں میں شہید زبیر جان بھی ہیں جو غلامی کے خلاف ایک زندہ باب اور مزاحمت کی نشانی ہیں۔ آج پاکستانی وحشی و درندہ فوج نے صبح الوقت ایڈووکیٹ زبیر بلوچ کے گھر کو اپنے گِیرے میں لیا اور پھر گولہ باری اور فائرنگ کی جس میں زبیر بلوچ اور اس کے ساتھی نثار بلوچ شہید ہوئے۔ زبیر بلوچ کی شہادت ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ریاست بلوچ کی وجود سے نفرت کرتی ہے چاہے وہ مسلح جدوجہد میں ہو یا پرامن، اس کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو کسی قتل کے ساتھ بھی نہیں۔
زبیر بلوچ ایک باشعور اور بہادر شخص تھے۔ وہ ہمیشہ لاپتہ افراد کی بازیابی کی باتیں کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی غلامی کو قبول نہیں کیا۔ وہ کہتے تھے کہ اب ریاستی جبر اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے، ہمارے گھر تباہ اور برباد ہو رہے ہیں۔ اگر اب میں ان پارلیمنٹروں کی رہنمائی کروں تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بی ایس او کی تربیت پر ایک سوالیہ نشان ہوگا۔ اس لیے میں اب بلوچ کے مسئلے کا حل پارلیمنٹ میں نہیں دیکھتا۔ وہ بلا شبہ بی ایس او کے باشعور رکن رہے مگر وہ پوری طرح بلوچ نیشنلسٹ تھے، وہ بلوچ پرست تھے۔ آج اگر نیشنل پارٹی کہتی ہے کہ شہید زبیر بلوچ کو ہم سلام پیش کرتے ہیں یا ان کے قتل کی مذمت کرتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ مذمت سے کچھ نہیں بنتا، ان کے راستے پر عمل کرو تو بہتر ہوگا، ورنہ اس طرح کے بیانات سے بزدلی اور بے شرمی کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا۔
شہید زبیر بلوچ ریاست پاکستان کو ایک ظالم اور جابر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ بلوچ کے استحصال کے سخت خلاف تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم اپنے آخری سانس تک اس کی مذمت کریں گے اور وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ہماری نسل در نسل اس وطن کی دفاع کرے گی۔ بلوچ قومی بقاء و تشخص پر مرنا ہمارے نزدیک اعلیٰ ترین اعزاز ہے۔
ان کی شہادت بلوچ قومی تحریک کے لیے مشعل راہ ہوگی۔ وہ ہمیشہ بلوچ قومی تحریک میں زندہ رہیں گے اور ان کی قربانی قومی تحریک کو مزید متحرک اور مضبوط کرے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔