پاکستانی فورسز نے آج ایک کارروائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) کے سابق چیئرمین سمیت دو افراد کو قتل کردیا۔
واقعے پر بلوچستان بار کونسل نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ زبیر بلوچ نے ہمیشہ ملک کے اندر آئین و قانون کی بالادستی کے لیے کردار ادا کیا وہ ایک پُرامن شہری اور وکیل تھے سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ان کا قتل وکلاء برادری کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے۔
انہوں نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت فوری طور پر زبیر بلوچ ایڈووکیٹ کے قتل میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرکے سزا دے۔
بلوچستان بار کونسل نے واقعے کے خلاف کل 25 ستمبر کو بلوچستان بھر میں عدالتی کارروائیوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
اسی طرح نیشنل پارٹی نے بی ایس او پجار کے سابق چیئرمین زبیر بلوچ کے گھر پر چھاپے اور فائرنگ کے نتیجے میں اُن کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے نہ صرف ایک سیاسی کارکن بلکہ ایک قانون کے ماہر کو گولیوں کا نشانہ بنایا جو انتہائی افسوسناک اور تشویشناک عمل ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ شہید چیئرمین زبیر بلوچ نے طویل سیاسی و جمہوری جدوجہد کی وہ آئین کے مطابق آزادی اظہارِ رائے، لاپتہ افراد کی بازیابی اور طلبہ کے مسائل و حقوق کے لیے مسلسل سرگرم رہے۔
بیان میں کہا گیا کہ زبیر بلوچ تنظیمی امور پر مکمل عبور رکھتے تھے اُن کے دور میں نہ صرف بی ایس او پجار بلکہ مجموعی طور پر طلبہ سیاست نے بلندی حاصل کی۔
نیشنل پارٹی نے چیئرمین زبیر بلوچ کی شہادت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غم کی اس گھڑی میں وہ شہید کے خاندان کے ساتھ کھڑی ہے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایڈووکیٹ زبیر بلوچ ایک پُرامن سیاسی کارکن اور انسانی حقوق کے مضبوط محافظ تھے دالبندین، ضلع چاغی، بلوچستان میں پاکستانی فوج نے ایک گھر پر چھاپہ مارا اور انہیں اُن کے ساتھی ناصر بلوچ کے ساتھ قتل کردیا، بے شرمی کے ساتھ پاکستانی فوج نے اس حملے اور قتل کی ذمہ داری قبول بھی کی ہے۔
بی این ایم کے ترجمان نے کہا ہے کہ یہ ریاستی دہشتگردی کا کھلا مظاہرہ تھا ایڈووکیٹ زبیر بلوچستان میں ایک توانا آواز تھے جو جبری گمشدگیوں، وسائل کی لوٹ مار اور جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف آواز بلند کرتے تھے اسی وجہ سے انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا اور شہید کیا گیا۔
ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج بلوچ قومی جدوجہد جو ایک حقیقی گہری جڑی ہوئی مقامی تحریک ہے اور قبضے کے خلاف ہے کو غیر ملکی مداخلت قرار دیتی ہے حتیٰ کہ ’’فتنہ الہندستان‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرکے دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتی ہے یہ پراپیگنڈہ ریاست کی کم ظرفی، نفرت اور ایک جائز مقامی تحریک کو بدنام کرنے کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ کسی کو نہیں بخشتے عورتیں، بچے اور پُرامن کارکن سب نشانہ بنتے ہیں چیئرمین زبیر کا قتل اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ پاکستان ہر اُس آواز کو خاموش کرنا چاہتا ہے جو بلوچ حقوق کے لیے بلند ہو۔
تنظیم نے کہا کہ چیئرمین زبیر بلوچ، جو بی ایس او (پجار) کے سابق چیئرمین اور ایک پارلیمانی جماعت کے طلبہ وِنگ کے رہنما تھے، قانون کے گریجویٹ تھے اور پُرامن سیاست کے لیے پُرعزم تھے اُن کا قتل اس بات کو بے نقاب کرتا ہے کہ ریاست کس طرح منظم انداز میں پُرامن اختلافِ رائے کو کچلنے اور پوری قوم کو مٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔
بی این ایم ترجمان نے کہا یہ واقعہ کو جاری بلوچ نسل کُشی کا حصہ ہے آج پاکستان اقوامِ متحدہ میں کھڑا ہو کر انسانی حقوق کا علمبردار بننے کا ڈھونگ رچا رہا ہے مگر حقیقت بالکل واضح ہے اس کی فوج ہر قانون کو روندتی ہے گھروں پر دھاوا بولتی ہے، اور نہتے شہریوں، عورتوں اور حتیٰ کہ نوزائیدہ بچوں تک کو قتل کرتی ہے۔
تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے جاری اجلاس کو اس مسئلے کو کھل کر اُٹھانا چاہیے اور پاکستان کو اپنے جرائم پر جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے سابق چیئرمین زبیر بلوچ کے قتل پر گہرے رنج و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صرف ایک فرد کا قتل نہیں بلکہ بلوچ طلبا تحریک اور قومی جدوجہد کو کچلنے کی منظم سازش ہے۔ زبیر بلوچ کو نشانہ بنا کر دراصل بلوچ طلبا سیاست کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے، مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایسی بزدلانہ کارروائیاں تحریکوں کو مٹانے کے بجائے مزید طاقتور بنا دیتی ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ زبیر بلوچ نے اپنی زندگی تعلیم، انصاف، قومی شعور اور طلبا کے حقوق کے لیے وقف کی۔ وہ ایک جری اور اصولی رہنما تھے جنہوں نے ہر مشکل وقت میں نوجوانوں کو امید اور رہنمائی دی۔ ان کا قتل اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ قوم کے باشعور بیٹوں کو راستے سے ہٹانے کے لیے گھناؤنی پالیسیاں اپنائی جا رہی ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ بی ایس او اس بہیمانہ قتل کی شدید ترین مذمت کرتی ہے اور واضح کرتی ہے کہ زبیر بلوچ جیسے رہنما جسمانی طور پر مارے جا سکتے ہیں مگر ان کے نظریات اور قربانیاں کبھی ختم نہیں کی جا سکتیں۔ ان کا خون بلوچ طلبا کے لیے عزم اور مزاحمت کا نیا عہد ہے۔تنظیم شہید زبیر بلوچ کی یاد میں تین روزہ سوگ کا اعلان کرتی ہے۔ اس دوران تمام تنظیمی سرگرمیاں محدود رکھی جائیں گی اور مختلف تقریبات کے ذریعے شہید کی قربانی کو خراجِ عقیدت پیش کیا جائے گا۔
بیان کے آخر میں کہا گیا کہ شہید زبیر بلوچ کی قربانی اس بات کا اعلان ہے کہ بلوچ طلبا اپنے قومی حق، اپنی شناخت اور اپنی سرزمین کے تحفظ کی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ان کے خون کا ایک ایک قطرہ بلوچ قوم کے اجتماعی عزم کو اور زیادہ مضبوط کرے گا۔