اقوام متحدہ میں چینی و پاکستانی ناکامی، فری ورلڈ، وار ڈیپلومیسی اور ہمارا رویہ
تحریر: ہارون بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ لبریشن آرمی اور بالخصوص اس کی فدائی وِنگ مجید بریگیڈ کے گزشتہ چند سالوں میں ہونے والے حملوں نے پاکستان کو اندرونی اور سیکیورٹی لحاظ سے شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ پاکستان اپنی کئی کوششوں کے باوجود مجید بریگیڈ کے خطرناک حملوں کو روکنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ پہلے پہل جو حملے صرف چینیوں کے خلاف ایک محدود پیمانے پر کیے جا رہے تھے، اب بی ایل اے کی آپریشنل صلاحیتوں میں مضبوطی کی وجہ سے مجید بریگیڈ کے حملے صرف چینیوں یا محدود اہداف تک محدود نہیں رہے بلکہ ان کا دائرہ کار وسیع پیمانے پر پھیل چکا ہے، اور پاکستان ان کے سامنے مکمل بےبس دکھائی دیتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مجید بریگیڈ نے پاکستان کے خلاف جو فوجی آپریشنز انتہائی مہارت اور فوجی آگاہی کے ساتھ انجام دیے ہیں، وہ ہر حوالے سے تاریخی ہیں اور پاکستان و بلوچ جنگ کو ایک فیصلہ کن نتیجے کی جانب بڑھانے میں اہم اور بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں، جو اس سے پہلے ہمیں کبھی دیکھنے کو نہیں ملے۔
فدائین حملوں نے جہاں بلوچ عوام میں تحریک کو لے کر ایک نیا اعتماد پیدا کیا ہے، وہیں عوامی سطح پر تنظیمی اور قومی جدوجہد پر بھروسے کو مضبوط کیا ہے، اور لوگوں کے اندر قومی تحریک کے لیے ایک مضبوط سوچ کی بنیاد ڈالی ہے۔ ان حملوں نے دشمن کو کئی حوالوں سے بےبس کر دیا ہے۔
پاکستان کے پاس ان حملوں کا جواب دینے کے لیے اب تک کوئی خاص حکمتِ عملی نظر نہیں آتی، اس لیے ریاست جہاں فوجی کارروائیوں کا جواب دینے میں ناکام دکھائی دیتی ہے، وہیں وہ اپنے لوگوں کا مورال بھی گرتا دیکھ رہی ہے۔ چنانچہ ریاست اس کا جواب جھوٹ، سوشل میڈیا وار فیئر یعنی پروپیگنڈا، اور سیاسی آوازوں کو دبانے کی صورت میں دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ اس تیزی سے بڑھتی ہوئی جنگ کو سیاسی تحریک پر ڈال کر اسے نشانہ بنانا چاہتی ہے، کیونکہ سیاسی تحریک کو نشانہ بنانا ہمیشہ سے ریاست کے لیے آسان رہا ہے۔
اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچستان میں سیاسی آوازوں کو دبا کر پنجابی عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہم جنگ میں بلوچ تحریک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جہاں پاکستان اپنے لوگوں کے سامنے اپنی ناکامی بتانے سے قاصر ہے، وہیں عالمی سطح پر اثر و رسوخ نہ ہونے کے باعث وہ چین کے سہارے دنیا کو بلوچ قومی تحریک کے خلاف کرنے اور عالمی اداروں میں بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کے خلاف لابنگ میں مصروف ہے۔
چونکہ پاکستان خود عالمی سطح پر ایک دہشتگرد ریاست کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے، اس لیے وہ چین کے طاقتور اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھا کر بی ایل اے کے خلاف دنیا میں جا کر تین مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔
پاکستان ایک طرف اپنے عوام کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ دنیا بی ایل اے کو ایک دہشتگرد تنظیم کے طور پر دیکھتی ہے، تاکہ وہ زمینی سطح پر ہونے والی اپنی ناکامیوں کو چھپا سکے، دوسری جانب وہ عالمی سطح پر بی ایل اے کے خلاف ایک بیانیہ بنا کر بلوچ عوام کے خلاف ایک مجرمانہ جنگ کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہا ہے، پاکستان کی تیسری حکمت عملی یہ ہے کہ جنگ میں ہونے والے اپنے نقصانات کو چھپایا جائے تاکہ دنیا کے سامنے اپنی شرمندگی سے بچا جا سکے۔
ایک طرف وہ دنیا بھر، بالخصوص مسلم ممالک کے سامنے، خود کو ایک طاقتور ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن بلوچستان کے معاملے میں جس طرح اسے عالمی بدنامی کا سامنا ہے، پاکستان اس صدمے کو برداشت نہیں کر پا رہا۔ اسی بنا پر وہ ایک نیا بیانیہ اور تاثر بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ پاکستان انفارمیشن وار فیئر کے ذریعے دنیا میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ بی ایل اے کو بھارت کی جانب سے آپریشنل اور مالی مدد حاصل ہے۔ البتہ دیکھا جائے تو بلوچ جنگجو جتنی بھی کارروائیاں کر رہے ہیں، ان میں بنیادی اسلحہ، حکمتِ عملی اور مہارتیں استعمال ہو رہی ہیں۔ پاکستان اب تک اس بات کو ہضم نہیں کر پا رہا کہ بلوچ جہدکاروں نے علمی اور پیشہ ورانہ بنیادوں پر بہت ترقی کر لی ہے، اور اب جنگ صرف جذبے سے نہیں بلکہ مہارت اور پروفیشنلزم کے ساتھ آگے بڑھائی جا رہی ہے۔ اسی لیے وہ خود کو اور دنیا کو بے وقوف بنانے کے لیے بھارت کا نام استعمال کر رہا ہے۔
اگر بھارت یا کوئی بھی تیسری قوت بلوچ قومی جہدکاروں کو کسی بھی لحاظ سے مدد دے، تو یہ نہ صرف اسٹریٹیجک کامیابی ہوگی بلکہ بلوچ جنگ کی صلاحیتوں میں جس طرح اضافہ ہوگا، وہ پاکستان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوں گے۔
آنے والے وقت میں یہ دیکھنا ہوگا کہ دنیا اس جنگ کو لے کر کس حد تک سنجیدگی دکھاتی ہے اور ہم دنیا کو کس حد تک باور کرا سکتے ہیں کہ بلوچ جنگ ایک ریاستی سطح کی، سنجیدہ، تعلیم یافتہ، پروفیشنل، اخلاقی، اور خطے بھر کے سیاسی، معاشی، انسانی حقوق اور انسانیت کے لیے ایک اہم اور مثبت جدوجہد ہے۔
اس کا نتیجہ کسی انتشار یا دہشتگردی کی صورت میں نہیں بلکہ خطے میں امن، خوشحالی، اور فری ورلڈ کی نظریاتی اور علمی فکر و فلسفے کی آبیاری کے طور پر سامنے آئے گا۔ ایک آزاد بلوچ ریاست خطے کو فری ورلڈ کی جانب ایک اہم قدم بنے گی اور پورے خطے میں اس نظریے کے منظم اور اثرانداز نتائج پیدا کرے گی۔
لبرلائزیشن، انسانی حقوق، سماجی برابری، انسانیت، ٹیکنالوجی، انوویشن، اور انسانی ترقی وہ بنیادی عناصر ہیں جو بلوچ جنگ کے فکری و عملی فلسفے میں موجود ہیں، اور اس جدوجہد کی کامیابی لبرل دنیا اور انسانیت کی کامیابی سے جڑی ہوئی ہے۔
مجید بریگیڈ کے حملوں کی نوعیت
اگر بی ایل اے اور بالخصوص اس کے ذیلی ونگ مجید بریگیڈ کے حالیہ حملوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ اپنی نوعیت میں انتہائی خطرناک اور اثرانداز رہے ہیں۔ بلوچ تاریخ میں شاید ہی کسی نے اتنی جلدی بلوچ جنگ کی اس نوعیت کا اندازہ لگایا ہو۔
جعفر ایکسپریس پر ہونے والا سنگین حملہ، جس میں ایک ٹرین کو مکمل طور پر ہائی جیک کر کے تقریباً دو سو کے قریب فوجیوں کو نشانہ بنایا گیا، ریلوے لائن پر ہونے والا فدائی حملہ، جس میں تقریباً 50 سے زائد فوجی ہلاک ہوئے، تربت، نوشکی اور دشت میں فوجی بس پر حملے، قلات میں فوجی قافلے پر حملہ ان تمام کارروائیوں نے پاکستانی فوج کو ذہنی اور نفسیاتی سطح پر شدید متاثر کیا ہے۔
ان تمام حملوں کی ایک کامیابی میں سبب سے اہم کامیابی یہ رہی ہے کہ یہ حملے اہم فوجی قافلوں، ٹارگٹ پر ہوئے ہیں جن پر ریاست کے درجنوں پیکٹ اور سیکورٹی تعینات ہوتی ہے۔ یعنی جہاں فوج خود کو سیکورٹی دینے میں ناکام دکھائی دیتا ہے جس سے دشمن کے مورال کو شدید دھچکا پہنچ رہی ہے۔ بی ایل اے کی آپریشنل صلاحیتوں کی کامیابی کی وجہ سے پاکستان اپنے فوجیوں کی نکل و حرکت کا بندوبست کرنے میں بھی ہچکچا رہی ہے جو یقیناً ایک اہم اور کسی بڑے جنگ کی جانب ایک اہم موڑ کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ حالیہ دنوں دشت میں ہونے والے فدائی حملوں کے مناظر نے پاکستان کو سنگین طور پر پریشان کر دیا ہے۔ بلوچ فدائی جس نوعیت کے وار کر رہے ہیں، ان میں بلوچ جنگ کی ٹیکٹیکل مہارت، انٹیلیجنس، ٹائمنگ، اسلحہ و بارود، اور شدت میں واضح اضافہ دیکھا جا سکتا ہے، جس نے پاکستان کے لیے شدید پریشانیاں پیدا کر دی ہیں۔ بلوچستان کی وہ سڑکیں جو پہلے صرف سیٹلرز کے لیے خطرناک سمجھی جاتی تھیں، اب خود پاکستانی فوجی ان پر سفر کو اپنی جان گنوانے کے مترادف سمجھتے ہیں۔
اگرچہ پاکستان کے خلاف تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) نے بھی شدت کے ساتھ حملے کیے ہیں، لیکن TTP کے معاملے میں ریاست کو ہمیشہ یہ ایڈوانٹیج حاصل رہا ہے کہ وہ ہر حملے کے بعد انہیں شدید نقصان پہنچانے میں کامیاب رہی ہے۔ ریاست کے پاس ٹی ٹی پی کے خلاف ہمیشہ سے ٹیکٹیکل آپشنز موجود رہے ہیں، مثال کے طور پر افغان حکومت پر دباؤ ڈالنا تاکہ وہ ٹی ٹی پی کو کسی بھی وقت روک سکے یا ٹی ٹی پی پر دباؤ ڈال سکے، اپنے سلیپر سیلز کے ذریعے اندرونی طور پر ان کے اہم افراد کو حملوں میں نشانہ بنانا، ڈرون اور جیٹ طیاروں کے ذریعے افغان سرحد پر ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے افراد یا ان کے ہمدردوں کو نشانہ بنانا، یا بڑے فوجی آپریشنز کے ذریعے عوامی مورال بلند کرنا۔
لیکن دوسری جانب بلوچ جنگ کے پاس سب سے اہم اور ٹیکٹیکل فائدہ یہ ہو رہا ہے کہ وہ اپنے ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کے بعد دشمن کو کوئی جواب یا ہدف باقی نہیں چھوڑتے یا اس وقت دشمن کو کوئی اہم ہدف نہ دینے میں کامیاب ہوئے ہیں جو یقینا ایک اہم کامیابی اور دشمن کو desperate کرنے کے لیے کافی ہے۔ ان جیسے بنیادی عوامل کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن مایوسی میں آ کر ایسے اقدامات اٹھا سکتا ہے جو بنیادی طور پر تحریک کے لیے کامیاب رہیں گے۔
ما سوائے استاد اسلم کو نشانہ بنانے کے، اس وقت چین اور پاکستان مل کر بھی مجید بریگیڈ کے خلاف کوئی ایک نتیجہ خیز حملہ کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لیے پاکستان کبھی جھوٹ کا سہارا لیتا ہے، تو کبھی عالمی کوششوں کے ذریعے مجید بریگیڈ کے خلاف چند وقتی کامیابیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جس نوعیت کے حملوں میں مجید بریگیڈ نے دشمن کو نشانہ بنایا ہے، اس سطح پر اب تک پاکستان ایک بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ یہ یقیناً بلوچ جنگ، بی ایل اے کی قیادت، اور بلوچ مسلح جدوجہد کی ٹیکٹیکل، آپریشنل، اور صلاحیتی سطح پر ہونے والی ترقی اور شدت کی ایک واضح نشانی ہے، اور دشمن کے خلاف بلوچ جنگ کی برتری کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ریاست کو کسی بلوچ مسلح ادارے نے Defensive Position پر لا کھڑا کیا ہے، اور ریاست، Offensive Position لینے کی کوششوں کے باوجود، بی ایل اے کے خلاف ٹیکٹیکل لحاظ سے کوئی خاص ایڈوانٹیج حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے۔
یہ بلوچ جنگ کے ایک نئے اور اہم مرحلے کی نشاندہی ہے اور اس کی کامیابی کی ایک بہترین مثال ہے۔ البتہ اس کے مزید کئی فیزز باقی ہیں، جو ہمیں عالمی سطح پر موثر مقابلے کے لیے طے کرنے ہوں گے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے لیے ناکامی
پاکستان نے گراؤنڈ میں ناکامی کے بعد گزشتہ کئی مہینوں سے یہ کوششیں تیز کر دی ہیں کہ عالمی سطح پر وہ بی ایل اے کے خلاف کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل کر سکے۔ اس سلسلے میں اس نے چین کا بھی سہارا لیا ہوا ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف کے حالیہ دورے کے دوران، وہ امریکہ سے بی ایل اے کو علامتی طور پر دہشتگرد تنظیم قرار دلوانے میں کامیاب رہا۔ البتہ مزاحیہ بات یہ ہے کہ 2019 میں بھی اسی کامیابی پر پاکستان بھر میں جشن منایا گیا تھا کہ امریکہ نے بی ایل اے کو دہشتگرد تنظیم قرار دیا ہے، اور اب 2025 میں ایک بار پھر اسی پر واویلا کرنا یقیناً پاکستان کی نفسیاتی شکست کی ایک واضح مثال ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن پاکستان یہاں رکا نہیں۔ اس نے حالیہ دنوں چین کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کے اندر بھی بی ایل اے کو دہشتگرد قرار دینے کی کوشش کی، جس میں بی ایل اے کو القاعدہ اور داعش جیسی دہشتگرد و مذہبی شدت پسند تنظیموں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ اس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ایسی پالیسیاں بنا کر آنے والے دنوں میں بلوچ عوام کے خلاف اپنے جرائم پر پردہ ڈال سکے۔
تاہم فرانس، برطانیہ اور امریکہ نے اس اقدام کو رد کرکے پاکستان کو چونکا دیا۔ پاکستان اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ حالیہ دنوں امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی وجہ سے اسے اس معاملے میں کامیابی ملے گی، لیکن امریکہ، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے بلوچ جنگ، اور بالخصوص بی ایل اے کو اقوام متحدہ کے اندر بطور دہشتگرد تنظیم تسلیم نہ کرنا یقینا یہ پہلا موقع ہے کہ عالمی سطح پر کسی بلوچ مسلح تنظیم کو اس حد تک پہچان (Recognition) حاصل ہوئی ہے۔ اس کی اہمیت کئی حوالوں سے نمایاں ہے، اور سب سے اہم چیز War Awareness ہے، جو ان طاقتور ممالک کے اندر بی ایل اے، اس کی ذیلی ونگ مجید بریگیڈ، اور ان کے حملوں کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے کوشش کرتا آیا ہے کہ بی ایل اے کو عالمی سطح پر ایک شدت پسند تنظیم کے طور پر پیش کرے، حالانکہ ٹی ٹی پی کے ساتھ بی ایل اے کے واضح نظریاتی اختلافات موجود ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان نے بارہا بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے یا ان کے درمیان کسی کولیبریشن کا تاثر دینے کی کوشش کی ہے، تاکہ بی ایل اے کو مذہبی شدت پسند تنظیم کے طور پر پیش کر کے، خاص طور پر نام نہاد فری ورلڈ کو گمراہ کرے۔
اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بلوچ جنگ کے تاریخی اور نظریاتی پہلو کو نظر انداز کر کے، اسے مذہبی گروہوں سے جوڑا جائے اور دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ بی ایل اے ایک ایسی شدت پسند تنظیم ہے جو عوامی آبادی کو نشانہ بنا رہی ہے یا اس کے مذہبی تنظیموں کے ساتھ روابط موجود ہیں۔ البتہ داعش کے خلاف بی ایل اے اور دیگر بلوچ مسلح تنظیموں کی حالیہ کارروائیوں نے دنیا کے سامنے اس حقیقت کو مزید واضح کر دیا ہے کہ بلوچ مسلح تنظیمیں مذہبی شدت پسندی کے سخت خلاف ہیں، جس کا اعتراف خلیل زلمے نے بھی اپنے بیانات میں کیا ہے۔ دوسری طرف، پاکستان کے دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ روابط اور تعلقات سے دنیا بخوبی آگاہ ہے۔ امریکہ نے اسلامی شدت پسندوں کے خلاف جتنے بھی اہم اہداف حاصل کیے ہیں، وہ زیادہ تر پاکستان میں ہی موجود تھے، اور دنیا میں جتنی بھی مذہبی دہشتگرد تنظیمیں ہیں، ان کا گڑھ ہمیشہ سے پاکستان ہی رہا ہے۔ پاکستانی فوج کے ان کے ساتھ تعلقات کبھی چھپے نہیں رہے۔ اسرائیل نے بھی حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ میں پاکستان کو اس کی دہشتگردانہ پالیسیوں پر expose کیا۔
لیکن بی ایل اے کو لے کر پاکستان کی یہ کوششیں صرف اقوام متحدہ تک محدود نہیں رہیں، بلکہ حالیہ دنوں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (SCO) میں بھی پاکستان نے بی ایل اے سے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کیا اور کوشش کی کہ بی ایل اے کو بھارت کے اتحادی کے طور پر پیش کرے۔ یقینا اگر کل کو بی ایل اے بھارت جیسی عظیم قوت کے ساتھ ایک فریق اور اتحادی کی صورت میں فیصلے کرنے لگے گا تو یہ بلوچ قومی تحریک کے لیے ایک وسیع کامیابی ہوگی، اور عالمی سطح پر بلوچ قومی طاقت کی قبولیت کی سمت ایک بڑی پیش رفت سمجھی جائے گی۔ البتہ اس مقام تک پہنچنے کے لیے ہمیں ابھی مزید وقت اور طاقت درکار ہوگی، اور اس سلسلے میں میری نظر ایک سب سے اہم قدم وار ڈیپلومیسی (War Diplomacy) پر توجہ دینا ہے۔
امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے فیصلے کی اہمیت
یقیناً یہ اپنی نوعیت میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ عالمی سطح پر امریکہ، فرانس یا برطانیہ نے بی ایل اے کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستان کی مخالفت کی ہے۔ اگرچہ امریکہ نے خود بھی علامتی طور پر بی ایل اے کو دہشتگرد قرار دیا ہے، اور یہی صورتحال برطانیہ کی بھی ہے، لیکن یہ صرف ایک سیاسی علامت ہے جو پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو برقرار رکھنے کی مجبوری کے تحت اپنائی گئی ہے۔ اب تک امریکہ، برطانیہ یا فرانس سمیت کسی بھی بڑی عالمی طاقت کی جانب سے بی ایل اے کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے۔ بلکہ اقوام متحدہ کے اندر پاکستان اور چین کی جانب سے بی ایل اے کے خلاف کی جانے والی کوششوں کو روکنا اس بات کا اعتراف ہے کہ امریکہ سمیت کوئی بھی مغربی یا یورپی طاقت بی ایل اے کو دہشتگرد تنظیم نہیں سمجھتی، اور نہ ہی اسے خطے یا کسی بھی ریاست کے لیے کوئی خطرہ تصور کیا جا رہا ہے۔ بی ایل اے کو لے کر یہ آگاہی یقینا اس بات کی علامت ہے کہ آج دنیا کی بڑی طاقتوں کی نظریں بلوچ جنگ پر مرکوز ہیں، اور اس جنگ کو ایک سنجیدہ قومی تحریک کے طور پر عالمی سطح پر قبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ اور آہستہ آہستہ ہم پاور پالیٹکس کی دنیا میں قدم رکھنے کی طرف گامزن ہیں۔
چین شاید اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھا کر آنے والے دنوں میں اس فیصلے کو تبدیل کروانے کی مزید کوشش کرے، لیکن اسے روکنے کے لیے بلوچ جدوجہد، اور بالخصوص بلوچ ڈائیاسپورا کو بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کے مقاصد سے دنیا کو باخبر کرنا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے، ریاست، دنیا، میڈیا اور عوام بی ایل اے کے مقاصد، جہد، تنظیم اور جنگ کے حوالے سے جاننا چاہتے ہیں، مگر ہمارے ہاں اس نظریے کی جڑیں مضبوط ہیں کہ جنگ اور سیاست دو الگ دنیائیں ہیں۔ اس باعث سیاست عالمی سطح پر صرف انسانی حقوق تک محدود رہ گئی ہے، اور ایک مضبوط طاقت ہونے کے باوجود ہمیں دنیا صرف مظلومیت کی آنکھوں سے دیکھتی ہے جبکہ جنگ، باوجود مضبوط گراؤنڈ رکھنے کے، دنیا کے سامنے اس طرح ایکسپلور نہیں ہو سکی جس طرح ہونا چاہیے تھا۔
امریکہ، فرانس اور برطانیہ کا حالیہ فیصلہ ہمارے لیے ایک اشارہ ہونا چاہیے کہ دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے، ہمیں سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے، اور اس حد تک ہماری جنگ سے باخبر ہے کہ آج چین اور پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود، وہ مجید بریگیڈ یا بی ایل اے کے خلاف دہشتگردی کا کوئی واضح ثبوت دنیا کے سامنے پیش کرنے میں ناکام ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری جنگ کو دنیا ایک نیشنلسٹ تحریک کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
اگر امریکہ یا برطانیہ چاہتے، تو وہ اپنے چھوٹے اتحادی ممالک کے ذریعے اس اقدام کو روکتے یا خود عملی طور پر اس کے خلاف اقدام پر Absentee ہو سکتے تھے لیکن انہوں نے نہ صرف اس پر ووٹ دیا بلکہ کھل کر پاکستان اور چین کی کوششوں کی مخالفت کی۔ یقیناً یہ اس بات کا اظہار ہے کہ دنیا میں بلوچ جنگ کے حوالے سے ایک آگاہی پیدا ہو چکی ہے، اور جیسے جیسے یہ جنگ شدت اختیار کرے گی، اس کی اہمیت اور افادیت مزید بڑھتی جائے گی۔ بلوچ جنگ ایک خالص نیشنلسٹ اور قومی و عوامی مفادات پر مبنی جنگ ہے، جس کا خطے بھر میں کوئی دوسرا یا خارجی ایجنڈا شامل نہیں بلکہ صرف اور صرف بلوچ آزاد ریاست کی بحالی ہے، جس پر پاکستان نے بزور طاقت قبضہ کر رکھا ہے۔ ایسے میں ہماری جنگ ایک دفاعی جنگ ہے، جس کا حق اقوام متحدہ سمیت عالمی قوانین ہر ریاست و قوم کو دیتے ہیں۔ آج بلوچ قوم ایک قابض ریاست کے خلاف اپنے بقاء اور آزادی کے لیے لڑ رہی ہے، بالکل اسی طرح جیسے یوکرین روسی جارحیت کے خلاف اپنی سرزمین کا دفاع کر رہا ہے، یا جیسے یورپی ممالک روس کے خطرے سے نمٹنے کے لیے دفاعی اقدامات کر رہے ہیں۔ اگر کوئی طاقت کسی زمین پر قابض ہو جائے، تو اس کے خلاف لڑائی دفاع کے زمرے میں آتی ہے اور آج بلوچ قوم یہی دفاعی جنگ لڑ رہی ہے، جسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کے مقاصد سے آگاہ کرنا ناگزیر ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے حالیہ اقدام اٹھا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ بلوچ جنگ عالمی سطح پر ایک لاوارث جنگ نہیں رہی بلکہ دنیا اب اسے سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے، اور سمجھ رہی ہے۔
ہمیں پاور پالیٹکس کے تقاضوں کو سمجھ کر ڈیپلومیسی کے میدان میں جنگ کو سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے، بالکل اسی طرح جیسے دنیا بھر میں دی جاتی ہے۔ دنیا کی تمام تحریکیں اور ریاستیں صرف طاقت کے ذریعے ہی آزادی حاصل کر سکیں ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں کسی بھی قوم یا ریاست نے محض مظلوم بن کر آزادی حاصل نہیں کی۔ سرد جنگ کے دوران دنیا بھر کی قومی تحریکوں نے دو متضاد عالمی طاقتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا۔ ایک طرف امریکہ کی مدد سے کئی قومیں سوویت یونین کے قبضے سے آزاد ہوئیں، تو دوسری طرف سوویت یونین کی مدد سے امریکہ اور کیپیٹل ازم، بالخصوص مغربی طاقتوں کے زیرِ اثر خطے آزاد ہوئے۔ ان دونوں صورتوں میں فیصلہ طاقت نے ہی کیا کہ کون آزاد ہوگا اور کون نہیں۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی ریاست کو بھیک مانگنے یا محض مظلومیت دکھانے سے آزادی حاصل نہیں ہوتی۔ وہ ریاستیں جو مانگنے یا منت سماجت سے وجود میں آتی ہیں، خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ بن جاتی ہیں اور اکثر ایسی ریاستیں جلد ہی دہشتگرد عناصر کے زیرِ اثر آ جاتی ہیں۔
اسی لیے، آزادی حاصل کرنے کے لیے دنیا کو یہ دکھانا اور ثابت کرنا ہوتا ہے کہ یہاں ایک منظم، دفاعی طاقت موجود ہے جو اپنی سرزمین، بارڈرز، اور ریاستی سلامتی کو یقینی بنانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے، اور کسی بھی بیرونی جارحیت کا سامنا کرنے کی قوت رکھتی ہے۔ صرف ایسی ریاستوں کو عالمی سطح پر شناخت، حمایت، اور عملی امداد حاصل ہوتی ہے۔ آج ہماری تحریک کو بھی یہ شعوری فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہماری طاقت کو گلوبل سطح پر کیسے متعارف کروایا جائے، اور کس طرح ہم موجودہ عالمی نظام، جو کہ پاور پالیٹکس پر مبنی ہے، اس میں اپنی جگہ بنا سکیں۔ دنیا طاقت کی زبان سمجھتی ہے، اور ہمیں اسی زبان میں اپنا مقدمہ لڑنا ہوگا۔
وار ڈیپلومیسی، تحریک کے تناظر میں
اس وقت جس طرح عالمی سطح پر گلوبل آرڈر میں تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں، یقیناً ہر ریاست اپنے دفاع پر سب سے زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ قطر کا امریکہ کے ساتھ ایک اور دفاعی معاہدہ ہو، بھارت کا اپنے دفاع کے تناظر میں نیکرواہائی لینڈز پر اسٹریٹیجک سرمایہ کاری ہو، امریکہ کا نیٹو کی معاشی و دفاعی پوزیشن پر توجہ دینا ہو، یا اپنے دفاعی ڈیپارٹمنٹ کے نام کو بدل کر، ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس سے، ڈیپارٹمنٹ آف وار رکھنا ہو، یہ تمام اقدامات ایک نئی پالیسی کی نشاندہی کرتے ہیں، جس کے مطابق امریکہ اب محض دفاعی پوزیشن پر نہیں رہے گا بلکہ اپنے دشمنوں کے خلاف جارحانہ حکمت عملی (Offensive Policy) اپنائے گا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا دفاعی معاہدہ ہو، جرمنی کی اپنی فوج کو جنگی تیاریوں کے لیے متنبہ کرنا ہو، چین کی فوجی قوت پر توجہ اور تائیوان کے گرد گھیرا تنگ کرنا، جاپان اور امریکہ کی چین کے خلاف مشترکہ جنگی تیاری، بالخصوص جاپان کی موجودہ مکمل جنگی تیاری، یہ تمام صورتحال اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ دنیا بھر کی ریاستیں نیٹو اور مغربی اتحاد کے تحت دفاعی معاہدوں میں مصروف ہیں۔
روس اور یوکرین پہلے ہی جنگ میں ہیں، مشرقِ وسطیٰ (Middle East) تباہ کن جنگوں کا شکار ہے، افریقہ بدترین خانہ جنگی کا میدان بنا ہوا ہے، ایران اسرائیل کے ممکنہ حملے کے خلاف مکمل تیاریوں میں مصروف ہے، اور عرب ریاستیں بھی جنگی تیاریوں میں لگی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یمن اور اسرائیل کے درمیان کھلی جنگ پہلے سے جاری ہے۔ سینٹرل ایشیا میں بھی ممکنہ طور پر آنے والے دنوں میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں، بالخصوص امریکہ کی جانب سے افغانستان کو دی جانے والی یہ دھمکی کہ وہ بگرام ایئربیس امریکہ کے حوالے کرے، ورنہ سخت اقدامات بھگتنا ہوں گے، یہ بھی ایک نیا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
اسی طرح فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حوالے سے مغربی ممالک بالخصوص فرانس اور برطانیہ کا عمل، اور اسرائیل کا اس حوالے سے اہم فیصلہ، جس میں نیتن یاہو نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے سرزمین پر کسی بھی فلسطینی ریاست کو قبول نہیں کرے گا اور اس سلسلے میں انہوں نے برطانیہ، فرانس، اور تمام ممالک کے اپوزیشن لیڈروں سے بات کرکے وہاں شاید یہودی لابی کچھ بڑا کرے، خاص کر یورپ میں اشتعال انگیزی پھیلانا، جو اٹلی کی جانب سے فلسطینی ریاست کو قبول نہ کرنے سے اٹلی بھر میں پھیل چکی ہے، یہ تمام نشانیاں ایک نئے عالمی عہد کے آغاز کی علامت ہیں۔ یہ تمام نشانیاں اس جانب اشارہ کر رہی ہیں کہ نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل تک دنیا کو ایک وسیع جنگ کا سامنا ہو سکتا ہے۔
تاریخی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو دنیا میں کبھی بھی نیا عالمی نظام (World Order) پرامن طریقے سے تشکیل نہیں پایا جس سے کوئی ریاست پرامن طریقے سے طاقتور اور عظیم عالمی قوت نہیں بنتی۔ اسی طرح ورلڈ آرڈر بھی پرامن طریقے سے کبھی بھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔ روس اور یوکرین تنازع اس کی جانب ایک پہلا قدم ہے لیکن آنے والے دنوں میں ہمیں مزید بہت سی چیزیں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھے تو پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا ایک ملٹی پولر آرڈر میں داخل ہوئی، پھر دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ بائی پولر آرڈر کا جنم ہوا، اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اور ساویت یونین کی شکست کے بعد ہی دنیا یونی پولر نظام میں تبدیل ہو گیا۔ اب ایک اور نتیجہ خیز جنگ کے بعد ہی دنیا ممکنہ طور پر کسی نئے عالمی آرڈر میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
جس طرح سرد جنگ کے دوران کئی ریاستوں نے آزادی حاصل کی، یا ملٹی پولر آرڈر کے دوران کئی نئی ریاستوں کا وجود عمل میں آیا، اسی طرح موجودہ بدلتے عالمی نظام میں بھی کئی اہم اسٹریٹجک تبدیلیاں متوقع ہیں۔ لہٰذا، جیسے ریاستیں وار ڈیپلومیسی یعنی دفاعی معاہدوں اور جنگی تیاریوں پر بھرپور توجہ دے رہی ہیں، قومی تحریکوں کے لیے بھی یہ ایک اہم وقت ہے کہ وہ وار ڈیپلومیسی کو اختیار کریں، یعنی جنگ کو اپنی سیاست کا مرکز بنائیں اور پاور پالیٹکس کو اپنی سیاسی تھیوری کا حصہ بنائیں۔
ریئلزم (Realism) کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم دنیا کو اپنی طاقت کے ذریعے اپنی حیثیت منوائیں۔ جب دنیا کی ریاستیں جنگی اپروچ کو اپنا رہی ہیں تو ہمارے لیے بھی نہایت اہم ہے کہ ہم ایک قومی اور جنگی اپروچ کو اپنی سفارتی حکمت عملی (Diplomacy) کا مرکز بنائیں۔
ہیومن رائٹس اپنی جگہ اہم ہیں، ان کی خلاف ورزیاں بھی ایک سنگین مسئلہ ہیں، لیکن یہ بنیادی مسئلہ نہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذریعے صرف ہمدردی حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن حقیقی سیاسی و سفارتی فائدے حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ آگاہی دینا الگ بات ہے، لیکن معاملات کو سیٹل کرنا، اتحادی بنانا اور معاہدے کرنا صرف طاقت کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے۔
ہیومن رائٹس کا بیانیہ آپ کو کچھ این جی اوز کے ذریعے تو بین الاقوامی تعلقات میں تھوڑی بہت جگہ دلا سکتا ہے، لیکن ریاستوں اور طاقتوں کے ساتھ تعلقات صرف پاور پالیٹکس کے اصولوں پر قائم کیے جا سکتے ہیں۔ یعنی آپ کی جنگی و اسٹریٹجک صلاحیت ہی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ دنیا کا رویہ آپ کے ساتھ کیسا رہے گا۔
پاکستان نے چاہے بھارت کو جنگ میں مکمل شکست نہ دی ہو، لیکن صرف چار دن کی فضائی برتری جس میں ایک بھارتی فوج کی جانب سے ایک ٹیکٹیکل غلطی نے پاکستان کو عالمی سطح پر ایک وقتی لیکن اہم دفاعی ساکھ دے دی اور دنیا نے اسے تسلیم کرنا شروع کیا، صرف ایک دن کی جنگ اور ایک ہی غلطی نے پاکستان کے چہرے کو دنیا بھر میں تبدیل کر دیا۔ یعنی طاقت کا فائدہ یہی ہے کہ دنیا آپ کی بات سننے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
ہماری سفارت کاری ابھی تک مذمتی بیانات، امیدوں، اپیلوں اور مظلومیت کے گرد گھوم رہی ہے۔ لیکن دنیا میں کوئی بھی کمزور طاقت یا قوم کو بلاوجہ اہمیت نہیں دیتا۔ نہ ہی کوئی عظیم طاقت بلاوجہ آپ کے لیے کسی اور طاقت سے دشمنی مول لے گی۔
ہمیں دنیا کے سامنے اپنی فوجی قوت، اپنی مزاحمتی صلاحیت اور اپنی تنظیمی طاقت کا برملا اعتراف کرنا چاہیے۔ اس وقت ہمیں وار ڈیپلومیسی کی شدید ضرورت ہے، جہاں ہم بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کی کارروائیوں کو کھلے طور پر اپنی طاقت کے طور پر پیش کریں۔ دنیا کو باور کروائیں کہ ہمارے پاس وہ صلاحیت موجود ہے کہ ہم جہاں اپنی سرزمین کو کنٹرول کرنے، یہاں امن لانے، گورننس کرنے، اپنے بارڈرز کی حفاظت کرنے کے قابل ہیں وہیں ہم دنیا کے مختلف ممالک اور طاقتوں کے مفادات کی حفاظت بھی کر سکتے ہیں۔ اسی طریقے سے ہم دنیا کو اس بات پر قائل کر سکتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ اتحاد کرے، اور ہمارے ساتھ سفارتی اور دفاعی معاہدات کرے۔
ریئلزم کی سیاست اور موجودہ ورلڈ آرڈر اس بات پر واضح ہے کہ اگر آپ طاقتور ہیں، تب ہی آپ کی کوئی حیثیت ہے۔ اس کی بہترین مثال خود امریکہ ہے۔ دنیا میں ایسا کوئی بدترین ظلم نہیں جس میں امریکہ ملوث نہ رہا ہو۔ حتیٰ کہ جس جاپان پر امریکہ نے ایٹمی حملے کیے، کروڑوں لوگوں کو قتل کیا، آج وہی جاپان امریکہ کو اپنی سیکیورٹی کی ضمانت دیتا ہے، اور امریکی فوجی بیسز اور سیکیورٹی معاہدوں کے ساتھ پچھلی کئی دہائیوں سے دنیا بھر میں ایک معاشی طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔
ہماری اور ریئلسٹ سیاست کی انڈرسٹینڈنگ میں فرق یہ ہے کہ ہم زیادہ تر نعروں، دعوؤں اور ریٹورک پر یقین رکھتے ہیں، اور انہی پر گزارہ کرتے ہیں، جبکہ ریئلزم کا تقاضا یہ ہے کہ ہم حالات کے مطابق فیصلہ سازی کی مکمل صلاحیت رکھتے ہوں، اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کریں۔
اس وقت ہمارے لیے بہترین فیصلہ یہی ہو سکتا ہے کہ ہم اس بدترین جنگ کو تسلیم کریں، اسے دنیا کے سامنے قبول کریں، اور عالمی سطح پر اس کی تشہیر کریں۔ ہمیں اپنی طاقت کا واضح اظہار کرنا ہوگا، یہ بتانا ہوگا کہ ایک آزاد بلوچستان ریاست اور اس کی فوج کل کو بحرِ عرب میں ایک بہترین اور اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر موجود رہے گا۔ یہ خطہ جہاں چینی مفادات موجود ہیں، وہاں بی ایل اے ان مفادات کے خلاف ایک طاقتور قوت کے طور پر کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
وار ڈیپلومیسی آج ہماری ایک ضرورت بن چکی ہے، لیکن اسے اپنانے کے لیے ہمیں بہترین انڈرسٹینڈنگ، واضح حکمتِ عملی، اور ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، اندرونی و بیرونی، دونوں سطحوں پر۔
ہم نے ماضی میں بعض اوقات انفرادی نقصانات کی بنیاد پر بہت سے بڑے فیصلوں سے گریز کیا ہے، جن کا نقصان اجتماعی سطح پر زیادہ ہوا ہے۔ اگر ہم دنیا کے دیگر مزاحمتی تحریکوں کو دیکھیں، چاہے وہ حماس ہو یا دیگر مسلح تنظیمیں، تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ یورپ یا نام نہاد فری ورلڈ میں بھی ان کے مؤقف کو ہمیشہ ایک مضبوط سیاسی بیانیہ میسر رہا ہے، چاہے وہ کن بھی حالات میں کام کر رہے ہوں۔ لیکن آج بدقسمتی سے، عالمی سطح پر ہم نے اپنے آپ کو کمزور اور مظلوم کے طور پر پیش کرکے اپنی حقیقی طاقت کے اظہار میں خود ہی ایک بڑی رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔
اختتام
آنے والے دنوں میں، جہاں بی ایل اے، بالخصوص تنظیم کے مجید بریگیڈ کے حملوں میں ہمیں جس طرح شدت اور طاقت دیکھنے کو مل سکتی ہے، وہیں ہمیں دشمن کے اندھا دھند حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بی ایل اے کی آپریشنل صلاحیتوں میں روز بروز اضافہ، اس بات کا ثبوت ہے کہ آج بلوچ قوم نے اس جنگ کو قبول کر لیا ہے، اور بلوچ سیاسی و علمی قوت اس جنگ کے سائے میں پروان چڑھ رہی ہے اور ایک طاقتور قوت کے طور پر ابھر رہی ہے۔ اس سے آنے والے دنوں میں دشمن کے خلاف شدید اور جاندار جنگ متوقع ہے۔ جعفر ایکسپریس کا ہائی جیک ہو، یا پاکستان کے میجرز اور کیپٹن رینک کے افسران کو ٹارگٹڈ آپریشنز میں نشانہ بنانا، یا پھر دشمن کے خلاف آئی ای ڈیز کا بدترین استعمال، یہ تمام حربے حالیہ تاریخ میں ہمیں بی ایل اے کی طرف سے بہترین طریقے سے استعمال ہوتے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ دوسری جانب “زراب” کا دن بہ دن ایک مضبوط ادارے کے طور پر ابھر کر سامنے آنا، یقینی طور پر بی ایل اے کی آپریشنل صلاحیت میں اضافے کا اظہار ہے، اور آنے والے دنوں میں یہ قوت دگنی ہو سکتی ہے۔
پاکستان کی جانب سے تنظیم، اس کی قیادت، اور اس کے ساتھیوں کو نشانہ بنانے کی ناکام کوششیں، یا جھوٹ کا سہارا لے کر اپنے عوام کو بہلانے کی پالیسی، یہ اس بات کا واضح اعتراف ہے کہ پاکستان بلوچستان میں اپنی گرفت کھوتا جا رہا ہے۔ اس کا اعتراف آج عالمی میڈیا سے جڑے مبصرین بھی کر رہے ہیں۔ فوج اس وقت ٹیکٹیکل اور انٹیلیجنس کی ہر سطح پر بلوچ جنگ کی آپریشنل صلاحیتوں کے سامنے بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ زہری پر بلوچ اتحادی تنظیموں براس کا کنٹرول ہو، دشمن کی پیش قدمی کو روکنا ہو، یا بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں پاکستانی فوج کے چھوٹے کیمپس کا خاتمہ، یا شاہراہوں کی غیرمحفوظیت، جہاں آئے دن دشمن پر فدائی حملوں کی صورت میں بڑے حملے ہو رہے ہیں، یہ سب اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستانی فوج گراؤنڈ پر پسپا ہو رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طاقت کے پیرائے کو سمجھا جائے، اور دشمن کے خلاف اس کا بہترین استعمال کیا جائے۔
اس کے مقابلے میں، پاکستان چین کی مدد سے عالمی سطح پر تنظیم کے خلاف اپنی کوششیں جاری رکھے گا، اور دنیا میں مجید بریگیڈ کو بالخصوص ایک دہشت گرد گروہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرے گا۔ وہیں، زمین پر دشمن عوام کے خلاف غیر معمولی مظالم میں شدت لا سکتا ہے۔ ہم نے اس جنگ کو وہ گراؤنڈ فراہم کر دیا ہے، جس سے ہم بلوچ جنگ کو ایک عالمی سطح کی طاقتور جنگ کے زمرے میں لا سکتے ہیں، اور اسی بنیاد پر ہم ایک طاقتور فریق کے طور پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ آج پاکستان، چین، سعودی عرب اور دیگر قوتوں سے مدد کے لیے بھاگتا ہوا نظر آتا ہے۔ ایک طرف دنیا میں طاقت کا پرچار کرتا ہے، اور دوسری طرف بلوچستان میں اس کی فوج بلوچ جنگ کے سامنے مکمل طور پر ناکام نظر آ رہی ہے۔ یہ صرف دعووں کی حد تک بات نہیں، بلکہ زمینی حقائق ہیں، اور پاکستان کی گھبراہٹ زدہ کیفیت اس کی سب سے بڑی دلیل ہے، جسے قبول کرنا اور اس صورتحال کو سمجھ کر مزید موثر حکمت عملی اختیار کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔