فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں نے تصدیق کی ہے کہ ان کی حکومت فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے گی۔
انھوں نے نیویارک میں اقوام متحدہ سے خطاب میں فرانس کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنے سے قبل کہا کہ ’غزہ میں جنگ بند کرنے اور حماس کی جانب سے حراست میں لیے گئے باقی 48 یرغمالیوں کو رہا کرنے کا وقت آگیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چند لمحوں کی دوری ہے اور پھر دنیا امن کو روک نہیں پائے گی ‘۔
انھوں نے مزید کہا ’ہم مزید انتظار نہیں کر سکتے۔‘
صدر میخواں نے سات اکتوبر کے حملوں کی مذمت کی اور کہا ہے کہ وہ خطے میں امن دیکھنا چاہتے ہیں جو دو ریاستوں کو ساتھ ساتھ رہنے سے پیدا کیا جائے۔
فراسن کے صدر کا کہنا تھا کہ ’جاری جنگ کا کوئی جواز نہیں ہے‘۔ ’ انھوں نے مزید کہا کہ ’ہر چیز ہمیں مجبور کرتی ہے‘ کہ اسے حتمی انجام تک پہنچائیں۔
’فلسطینیوں کے لیے ریاست کا قیام انکا حق ہے، انعام نہیں‘
اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ ’فلسطینیوں کے لیے ریاست کا قیام انکا حق ہے، انعام نہیں۔‘
نیویارک میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین کا واحد حل دو آزاد اور خود مختار ریاستوں کا قیام جو باہمی طور پر تسلیم شدہ ہوں اور جو بین الاقوامی برادری میں مکمل طور پر ضم ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست سے انکار کرنا انتہا پسندوں کو نوازنے کے مترادف ہوگا۔
’ہمیں دو ریاستی حل کے لیے کوشش کرنی چاہیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔‘
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ مغربی کنارے میں یہودی ’بستیوں کی مسلسل توسیع‘ کا کوئی جواز نہیں۔
دوسری جانب سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان آل سعود نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں اپنے رہنما محمد بن سلمان کی جانب سے خطاب کیا۔
انھوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر ایمانوئل میخواں کا شکریہ ادا کیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ خطے میں منصفانہ اور دیرپا امن کے حصول کا واحد راستہ دو ریاستی حل ہے
فلسطینی صدر کا حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ
فلسطینی صدر محمود عباس جنھیں نیویارک میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے ویزا نہیں دیا گیا انھوں نے ویڈیو خطاب کے دوران مستقل جنگ بندی اور اقوام متحدہ کے ذریعے انسانی امداد تک رسائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے ’بغیر کسی تاخیر کے‘غزہ اور مغربی کنارے کی تعمیر نو کے آغاز کا بھی مطالبہ کیا۔
محمود عباس نے کہا کہ غزہ پر حکومت کرنے میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا، انھوں نے گروپ کو فلسطینی اتھارٹی کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے وضاحت کی کہ ’ہم جو چاہتے ہیں وہ ہتھیاروں کے بغیر ایک متحد ریاست ہے۔‘
محمود عباس کا کہنا ہے کہ جنگ کے خاتمے کے تین ماہ کے اندر ایک عبوری آئین کا مسودہ تیار کیا جائے گا تاکہ اقتدار کی درست منتقلی کو یقینی بنایا جا سکے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد انتخابات بین الاقوامی مشاہدے کے تحت ہوں گے۔
انھوں نے ان 149 ممالک کی تعریف کی جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے اور جن ممالک نے نہیں کیا ان سے ایسا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
محمود عباس نے اقوام متحدہ کی کانفرنس کے دوران منظور کیے گئے کسی بھی امن منصوبے پر عمل درآمد کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، سعودی عرب اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر بھی آمادگی کا اظہار کیا۔