سعودی پاکستان دفاعی معاہدہ، خطے پر اثرات اور بلوچ قومی تحریک – ہارون بلوچ

181

سعودی پاکستان دفاعی معاہدہ، خطے پر اثرات اور بلوچ قومی تحریک

تحریر: ہارون بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

17 ستمبر کو سعودی عرب اور پاکستان کی جانب سے ریاض میں ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ اس معاہدے کے دستخط سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگرچہ پاکستان خود کو اس معاہدے میں ایک طاقتور فریق کے طور پر پیش کر رہا ہے، اصل میں یہ معاہدہ سعودی عرب کی ضرورت کے تحت سامنے آیا ہے، جو اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں پیدا ہونے والی جنگی صورت حال سے خود کو خطرے میں محسوس کر رہا ہے۔

دونوں فریقین کے درمیان اس دفاعی معاہدے کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر بیرونی حملہ کیا جاتا ہے تو اسے دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ نکتہ نیٹو کی شق 4 سے مماثلت رکھتا ہے، جس کے مطابق نیٹو کے کسی ایک ملک پر حملہ، تمام رکن ممالک پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم، اب تک یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ اس معاہدے میں جوہری ہتھیاروں (نیوکلیئر ویپنز) کی پوزیشن کیا ہوگی۔ آیا پاکستان اپنے جوہری پروگرام، جو اب تک صرف بھارت کے خلاف ایک دفاعی حکمت عملی کے طور پر موجود تھا، میں کوئی تبدیلی لا کر سعودی عرب کے دفاع میں استعمال پر غور کرے گا، یا نیوکلیئر ہتھیاروں کو اس معاہدے سے علیحدہ رکھا گیا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات آنے والے وقت میں واضح ہوں گے۔ اگر پاکستان واقعی اپنے جوہری ہتھیاروں کو سعودی دفاع کے لیے قابل استعمال بناتا ہے، تو یہ نہ صرف اسٹریٹیجک طور پر ایک بڑا فیصلہ ہوگا بلکہ پاکستان کے لیے ممکنہ خطرات کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔

اسرائیل، جو پہلے ہی ایران کو نیوکلیئر طاقت بننے سے روکنے کی کوششوں میں مصروف ہے، ممکن ہے کہ پاکستان کو بھی ایک ممکنہ خطرہ تصور کرنے لگے، خصوصاً اگر پاکستان کے جوہری ہتھیار کسی ریڈیکل اسلامی اتحاد کا حصہ بنتے ہیں۔ اسرائیل کے لیے جوہری ہتھیاروں کا مخالف قوتوں کے ہاتھ آنا ایک وجودی خطرہ (existential threat) ہے، اسی لیے وہ ماضی میں عراق اور ایران کے نیوکلیئر پروگرامز کو تباہ کر چکا ہے۔ اگر اسرائیل کو پاکستان سے بھی ایسا ہی خطرہ محسوس ہوا تو وہ مستقبل میں پاکستان کے جوہری اثاثوں کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی اختیار کر سکتا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف اسرائیل بلکہ بھارت کے لیے بھی ایک نیا موقع پیدا کرے گی۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کے اُس بیان نے مزید خدشات کو جنم دیا ہے، جس میں انہوں نے دیگر عرب ممالک کو بھی اس اتحاد میں شامل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان میں وہ ممالک شامل ہو سکتے ہیں جو فلسطینی مزاحمت کی حمایت کرتے ہیں اور اسرائیل کے لیے ممکنہ خطرہ سمجھے جاتے ہیں۔ اگر انہیں ایک جوہری طاقت کی پشت پناہی حاصل ہو جائے تو یہ اسرائیل کے لیے ناقابل قبول ہوگا۔

معاہدے میں انٹیلیجنس شیئرنگ، مشترکہ فوجی مشقیں، روایتی افواج کی تربیت اور ٹیکنالوجی شیئرنگ جیسے نکات شامل ہیں۔ تاہم، یہ امر بھی قابل غور ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب، دونوں ہی وارفیئر ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت زیادہ مضبوط نہیں سمجھے جاتے۔ جہاں تک تجربے کا تعلق ہے، سعودی عرب کو اب تک کسی بڑی جنگ میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ یمن میں حوثیوں کے خلاف کئی سال تک جنگ کے باوجود سعودی افواج کو شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر انہیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ حالیہ برسوں میں سعودی عرب نے چین کی ثالثی کے ذریعے ایران کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں بھی کی ہیں۔ ایسے میں یہ دفاعی معاہدہ خطے میں طاقت کے توازن اور نئی صف بندی کی طرف ایک اشارہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان کیلئے یہ معاہدہ کیوں معنی رکھتا ہے؟

پاکستان اس وقت دنیا کے ان ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جنہیں شدید تشدد اور شورش کا سامنا ہے۔ آج پاکستان کے مغربی و مشرقی دونوں علاقوں میں، ایک طرف بلوچ آزادی پسند ہیں جنہوں نے بلوچستان میں پاکستانی فوج کو شدید نوعیت کی جنگ سے دوچار کر دیا ہے، اور پاکستان بلوچستان میں دن بدن اپنی طاقت کھوتا جا رہا ہے، جبکہ بلوچ آزادی پسند دن بدن مزید مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب خیبرپختونخوا میں ٹی ٹی پی کی جانب سے بھی شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ اندرونی طور پر جہاں پاکستان کو شدید نوعیت کے فوجی چیلنجز کا سامنا ہے، وہیں بیرونی سطح پر بھی پاکستان کو کافی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایک سال پہلے ایران نے پاکستان کے زیرِ تسلط بلوچستان میں جیش العدل کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا جبکہ بدلے میں پاکستان نے ایران پر حملہ کر دیا اور ایک جنگی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔ وہیں کچھ وقت بعد بھارت کے ساتھ بھی پاکستان کی جنگ چھڑ گئی۔ پہلگام حملے کے بعد ہندوستان نے پاکستان کو قصوروار ٹھہرا کر پاکستان کے مختلف علاقوں میں حملہ کیا۔ پاکستان کے بیشتر ہوائی اڈوں کو نشانہ بنا کر نقصان پہنچایا گیا۔ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی نے بعدازاں کہا کہ آپریشن سندور، جو پاکستان کے خلاف فوجی آپریشن کا نام تھا، ختم نہیں ہوا بلکہ جاری ہے۔ یعنی مودی عنقریب دوبارہ پاکستان کو حملوں کا نشانہ بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات دن بدن بگاڑ کا شکار بنتے جا رہے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحدی جھڑپیں روزانہ کا معمول بن چکی ہیں اور پاکستان کئی وقت سے افغانستان کے اندر کارروائی کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ پاکستان نے ان دو سے تین سالوں کے درمیان، بالخصوص طالبان کی حکومت آنے کے بعد، طالبان حکومت پر بلوچ عسکریت پسندوں اور ٹی ٹی پی کو سپورٹ کرنے کا الزام لگایا ہے اور سرحدی علاقوں میں موجود ان مہاجرین کو نشانہ بناتا رہا ہے جنہیں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کا ہمدرد یا خاندان تصور کیا جاتا ہے۔ افغانستان نے پاکستانی حملوں کے جواب میں سرحدی علاقوں میں پاکستان کی بارڈر فورس پر کئی حملے کیے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت ایک شدید نوعیت کے سیکیورٹی چیلنج کا سامنا ہے۔ چین کی سپورٹ کی وجہ سے وہ کسی نہ کسی حد تک روایتی جنگ (conventional warfare) میں اپنا دفاع یقینی بناتا رہا ہے، لیکن پھر بھی وہ شدید خطرات کا شکار ہے۔

پاکستان بے چینی سے ایسے اتحاد کی کوششوں میں مصروف ہے جس سے اسے جنگ لڑنے کے لیے معاشی سپورٹ حاصل ہو اور وہ جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کرے جو کسی نہ کسی حد تک جنگ کے طریقے کو بدل رہی ہے۔ پاکستان کو سعودی عرب کی شکل میں ایک معاشی طور پر مضبوط ریاست کا سہارا ملنا یقیناً سونے پر سہاگہ جیسی صورتِ حال بن چکی ہے۔ پاکستان، سعودی عرب سے اس معاہدے کے تحت دفاعی ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کے نام پر فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ جہاں وہ سعودی عرب کی معیشت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے فوجی ساز و سامان بنانے پر کام کر سکتا ہے، وہیں وہ سعودی عرب کی ان ٹیکنالوجیز تک بھی رسائی حاصل کر سکتا ہے، جو وہ بیشتر امریکہ سے سالانہ کھربوں ڈالر کے عوض حاصل کرتا ہے۔ سعودی عرب اس وقت امریکہ کی دفاعی مارکیٹ کا سب سے بڑا صارف (consumer) ہے۔ پاکستان چاہے گا کہ وہ اس جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کرے اور اسے بلوچستان میں استعمال کرے، جو اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑا فوجی چیلنج بن چکا ہے۔

پاکستان اس معاہدے سے سب سے بڑا فائدہ یہ حاصل کرنا چاہتا ہے کہ بھارت مستقبل میں پاکستان کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہ کرے، کیونکہ ایسی صورت میں اُسے سعودی عرب کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کئی برسوں سے بھارت کی ابھرتی طاقت سے خوف محسوس کرتا آ رہا ہے۔ چین کی سپورٹ کی موجودگی کے باوجود بھارت نے گزشتہ چھ سالوں کے دوران دو مرتبہ پاکستان کو حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ بھارت پاکستان کی فوجی طاقت کا اس طرح خاتمہ کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنا سارا فوکس چین پر مرکوز کر سکے، جیسا کہ اسرائیل نے اردن اور شام کے ساتھ کیا تھا۔ بھارت چاہتا ہے کہ وہ پاکستان کے خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے۔ ایسی صورتِ حال میں پاکستان کو سعودی عرب جیسے اتحادی کا ملنا، جو معاشی لحاظ سے کسی بھی حملے کی صورت میں پاکستان کو سپورٹ کر سکتا ہے، یقیناً پاکستان کے لیے ایک خوش آئند بات ہے، اور پاکستان کو اس کامیابی پر خوش ہونا چاہیے۔

پاکستان کو معاہدے سے پیدا ہونے والے چیلنجز کا سامنا

جہاں ہر اتحاد کے اچھے اثرات ہوتے ہیں، وہیں ان کے برے اثرات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اتحاد پر پاکستان جس طرح خوشی منا رہا ہے، اُسی طرح اسے اس کے ممکنہ خطرات کا بھی ادراک ہونا چاہیے۔ پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ کر کے اسرائیل کو ایک کھلا پیغام دیا ہے کہ وہ اب پاکستان کو اپنے لیے ایک مستقل ٹارگٹ کے طور پر دیکھے، اور اس سلسلے میں پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ اگر پاکستان کے سیکیورٹی ایکسپرٹ موجود ہیں، تو وہ خوابوں میں بھی اسرائیل کے ساتھ لڑائی یا دشمنی مول لینے سے پاکستان کو روکنے کی کوشش کریں گے۔ اس کی ایک مثال ہمیں غزہ مارچوں پر پابندی لگانے سے بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسرائیل نے مشرقِ وسطیٰ میں جس طرح اپنے دشمنوں کو نقصان پہنچا کر اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے کوئی بھی ریاست اسرائیل سے جنگ لینے کی غلطی نہیں کر سکتی۔ اور ایک ایسی ریاست جو اس وقت دنیا میں دوسرا ملک ہے جو سب سے زیادہ تشدد کا نشانہ بن رہی ہے، اور جسے بلوچ عسکریت پسندوں کی جانب سے ایک ریڈیکل (نیشنلسٹ) تحریک کا سامنا ہے، اس کے لیے یہ صورتحال مزید بربادی کا پیغام لے کر آ سکتی ہے، اگر اسرائیل پاکستان کے خلاف کوئی محاذ کھولنے کا فیصلہ کرتا ہے۔

پاکستان نے اس معاہدے کے ذریعے جہاں اسرائیل کو یہ دعوت دی ہے کہ وہ پاکستان کو ایک چیلنج کے طور پر ڈیل کرے، وہیں ایران سے بھی دشمنی مول لے لی ہے۔ پاکستان گزشتہ کئی مہینوں سے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ ایران کی سرحد پر اسے کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔ ایران میں حالیہ حملوں میں کسی نہ کسی طرح سعودی عرب کی فضائی حدود (airspace) استعمال ہونے کے آثار پائے گئے ہیں، اور ایران سعودی عرب کو ایک مستقل دشمن کے طور پر دیکھتا ہے۔ سعودی عرب کو نیوکلیئر ہتھیاروں کی صورت میں deterrence دینا ایران کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ ایران یہ سمجھتا ہے کہ اسے جو عسکریت پسندی مشرقی بلوچستان و سیستان میں درپیش ہے، اس کے پیچھے سعودی عرب کا ہاتھ ہے، کیونکہ انہیں اکثر سعودی فنڈنگ کے شواہد ملتے رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اس نوعیت کا معاہدہ ایران کے لیے یقیناً پریشانی کا باعث ہوگا، اور ایران اپنے تمام آپشنز استعمال میں لا سکتا ہے۔ خاص طور پر ان سرحدی علاقوں میں جہاں پاکستان کو پہلے ہی چیلنجز کا سامنا ہے، خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں۔

اگر بات کی جائے ایران اور سعودی عرب کی، تو ایران کو پاکستان کے خلاف ایک خاص اسٹریٹجک برتری حاصل ہے۔ ایران پاکستان کے ساتھ ایک طویل سرحد رکھتا ہے اور پاکستان اکثر دبے الفاظ میں ایران پر الزام لگاتا رہا ہے کہ اس کی سرزمین کو بلوچ عسکریت پسند استعمال کرتے آ رہے ہیں، جبکہ عسکریت پسندوں کا مؤقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ انہیں ایران سے کسی بھی قسم کی مدد حاصل نہیں ہے۔ اگر ایران پاکستان کے خلاف ایک مستقل دشمن کے طور پر ابھرتا ہے تو یہ اسلام آباد کے لیے ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہوگی۔ ایران کو نہ صرف سرحدی برتری حاصل ہے بلکہ پاکستان کی 20 فیصد آبادی شیعہ ہے، اور ایران کے زیرِ اثر کئی گروہ اور مذہبی جماعتیں اس وقت پاکستان میں متحرک ہیں۔ ایسی کسی بھی صورت میں ایران پاکستان کے اندر شدید نوعیت کی خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کر سکتا ہے۔ دوسری جانب، ان اقدامات کے نتیجے میں ایران، پاکستان کے بجائے بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اسرائیل اور بھارت کے تعلقات بھی مزید مضبوط ہو سکتے ہیں، جو یقیناً پاکستان کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔ پاکستان نے اس معاہدے کے ذریعے کئی ممالک کے لیے alarming صورتحال پیدا کر دی ہے، اور پاکستان کے جوہری ہتھیار اب بڑی طاقتوں کے ممکنہ ٹارگٹ بن سکتے ہیں۔ سعودی عرب یا دیگر عرب ممالک، جو پہلے سے ہی مختلف جنگی تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں، کے ساتھ دفاعی معاہدوں کے نتیجے میں پاکستان نے خود کے لیے ایسے بیرونی خطرات کو دعوت دی ہے جو صرف سرحدی طاقتوں تک محدود نہیں ہیں۔

سعودی عرب اس معاہدے سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟

حالیہ دنوں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اسرائیلی حملوں نے کئی ممالک کی نیندیں حرام کر دی ہیں، بالخصوص سعودی عرب، پاکستان، اور ترکی میں، جہاں کسی نہ کسی طور حماس کے حمایتی اور ممبران موجود ہیں۔ گو کہ پاکستان میں باضابطہ طور پر حماس کا کوئی رہنما نہیں رہتا، البتہ اندرونی طور پر فلسطین کے مختلف گروہوں کے لوگ آتے جاتے رہے ہیں، جبکہ اسرائیل کے لیے پاکستان وہ واحد ریڈیکل اسلامک ریاست ہے جو نیوکلیئر اسلحہ رکھتی ہے۔ قطر حملے کے بعد کئی ممالک کو یہ خدشہ پیدا ہوا ہے کہ اسرائیل قطر تک محدود نہیں رہے گا۔ اس کی واضح مثال حملوں کے بعد نیتن یاہو کی تقریر ہے، جس میں انہوں نے دو مرتبہ پاکستان کا نام لیا اور کسی نہ کسی طور یہ دھمکی دی کہ وہ اگلے حملوں کا نشانہ بن سکتا ہے۔ قطر پر حملے کے بعد عرب ریاستوں کے لیے ایک چیز واضح ہو گئی کہ امریکہ اسرائیل کے خلاف انہیں کوئی عملی مدد فراہم نہیں کرے گا۔ یعنی اگر اسرائیل ان میں سے کسی ملک پر حملہ کرے، تو امریکہ کی دفاعی ادارے اسے روکنے میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کریں گے۔ سعودی عرب چاہتی تو روس، چین یا کسی اور بڑے ملک کے ساتھ اتحاد قائم کر سکتی تھی، لیکن اس نے اسٹریٹیجک طور پر پاکستان کا انتخاب کیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات نسبتاً بہتر ہیں، اور سعودی عرب کے خیال میں اس معاہدے سے امریکہ کا ناراض ہونا کم امکان رکھتا ہے۔ اگر یہ معاہدہ روس یا چین کے ساتھ ہوتا، تو امریکہ کی طرف سے شدید ردِعمل آ سکتا تھا۔ پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو امریکہ شاید ایک بڑی خطرے کے طور پر نہ دیکھے۔

سعودی عرب کئی دہائیوں سے پاکستان کی نیوکلیئر صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے مالی امداد فراہم کرتا آ رہا ہے، تاکہ وقتِ ضرورت اس سے اسٹریٹیجک فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو ایک اہم دفاعی قوت کے طور پر دیکھا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہر حالت میں پاکستان کا حمایتی رہا ہے۔ آج سعودی عرب محسوس کرتا ہے کہ وہ پاکستان کو باقاعدہ ایک معاہدے کے تحت پابند کرے تاکہ اگر مستقبل میں سعودی عرب کو کسی بیرونی حملے کا سامنا ہو تو پاکستان اس کے دفاع میں کردار ادا کرے۔ سعودی عرب کے لیے جہاں اسرائیل ایک خطرے کے طور پر موجود رہا ہے، وہیں ایران بھی ہمیشہ سے ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ دفاعی تعلقات کے ذریعے سعودی عرب ایران پر بھی سفارتی و عسکری دباؤ بڑھانا چاہتا ہے، خاص طور پر ان سرحدی علاقوں میں جہاں سعودی اثر بڑھایا جا سکتا ہے۔ ایسے کسی بھی دفاعی معاہدے کے بعد سعودی عرب کو ایران کے خلاف ایک اہم اتحادی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ اگرچہ فی الحال سعودی عرب نے حوثیوں کے خلاف کارروائیاں روک دی ہیں، لیکن ماضی میں وہ طویل عرصے تک ان کے خلاف لڑتا رہا ہے اور اسے شدید ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے میں پاکستان مستقبل میں یمن کے خلاف سعودی پالیسیوں کا حصہ بن سکتا ہے۔

سعودی عرب ہمیشہ اپنی دفاعی حیثیت کو لے کر خوفزدہ رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے یورپی ممالک دوسری جنگ عظیم کے بعد خوفزدہ رہے۔ اسی لیے انہوں نے نیٹو جیسے فوجی اتحاد تشکیل دیے تاکہ اجتماعی دفاع کو یقینی بنایا جا سکے۔ بیشتر یورپی ممالک اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کسی بڑے حملے کی صورت میں وہ تنہا اپنا دفاع نہیں کر سکتے، جس کی مثال جنگِ عظیم دوم کے دوران جرمنی کے ہاتھوں ان کی برق رفتار شکست ہے۔ اگرچہ نیٹو نے کئی ممالک کو دفاعی اطمینان فراہم کیا، لیکن یوکرین جنگ اس بات کی مثال ہے کہ نیٹو ایک مستقل سیکیورٹی حل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں جرمنی نے بھی اپنی فوج کو جنگ کی تیاری کے احکامات جاری کیے ہیں۔ جرمنی کو خدشہ ہے کہ وہ جلد ہی روس کے خلاف ایک بڑی جنگ میں داخل ہو سکتا ہے، اور اس حوالے سے بھرپور تیاریاں جاری ہیں۔ سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ اس معاہدے کے ذریعے دراصل اسے اپنے دفاع کی ضمانت (Defensive Guarantee) کے طور پر لیا ہے۔ البتہ مستقبل میں دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ دفاعی اتحاد کس حد تک عملی شکل اختیار کرتا ہے اور کس حد تک صرف کاغذی معاہدہ بن کر رہ جاتا ہے۔

سعودی عرب کیلئے چینلجز

پاکستان جیسے پرتشدد ملک کے ساتھ ایسا اتحاد کرکے سعودی عرب نے خود کو کئی حوالوں سے ایک نازک صورت حال میں ڈال دیا ہے۔ بھارت نے اپنے حالیہ بیان میں یہ واضح کیا ہے کہ وہ اس معاہدے کی شقوں کو سمجھنے اور اس کی نوعیت کا جائزہ لے رہا ہے۔ البتہ یہ دیکھنے والی بات ہوگی کہ بھارت سعودی عرب کو کس طرح جواب دیتا ہے، جبکہ سعودی عرب جیسے ملک کے لیے پاکستان کی پرتشدد کارروائیوں کو لے کر کسی جنگ میں جانا ممکن نہیں ہوگا۔ سعودی عرب نے یہ معاہدہ بظاہر جلد بازی میں اور صرف اسرائیل سے خود کو بچانے کے لیے کیا ہے۔ لیکن اگر عملی پہلو دیکھا جائے تو پاکستان کے خطے میں جو کردار رہے ہیں، سعودی عرب ان کو نہ صرف برداشت نہیں کرے گا بلکہ ان پر عمل کرنے کے لیے تیار بھی نہیں ہوگا۔ یہ بات یقینی ہے کہ اگر کل کو کشمیر میں کوئی بڑا حملہ ہوتا ہے تو اس کا ردعمل بھارت پاکستان کے ٹھکانوں پر حملوں کی صورت میں دے گا، اور ایسی صورت میں سعودی عرب بھارت کے خلاف کسی بھی قسم کی لڑائی میں شریک نہیں ہوگا، کیونکہ بھارت کے ساتھ اس کے کئی معاشی معاہدے ہیں۔

دوسری طرف، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بھی دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں اور کسی بھی وقت ان دونوں ممالک کے درمیان ایک بڑی جنگ کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔ پاکستان خیبر پختونخوا میں ہونے والے حملوں کا الزام افغانستان پر عائد کرتا ہے اور افغانستان کے اندر جوابی کارروائیاں کرتا رہا ہے، جبکہ افغانستان اپنی تیاریوں میں مصروف ہے۔ اگر کل کو پاکستان کی جانب سے کوئی بڑا misadventure کیا گیا، تو افغانستان حملوں کے ذریعے اس کا جواب دے سکتا ہے۔ ایسی صورت میں افغانستان کے خلاف سعودی عرب کا لڑنا یقیناً غیر عملی ہوگا۔ جہاں تک معاہدے پر پاکستانیوں کی خوشی کا تعلق ہے، مجھے نہیں لگتا کہ سعودی عرب پاکستان کے علاقائی معاملات کو لے کر کسی جنگی محاذ کا حصہ بنے گا۔ البتہ معاشی حمایت کی بات کی جائے تو یقیناً پاکستان کو سعودی عرب کی جانب سے ہمیشہ سے مالی سپورٹ حاصل رہی ہے، اور اس معاہدے کے بعد شاید یہ سپورٹ مستقبل میں بڑھ جائے، لیکن یہ ایک مستقل نوعیت کا اتحاد نظر نہیں آ رہا۔ سعودی افواج آج بھی امریکی دفاعی چھتری پر انحصار کرتی ہیں اور انہیں خود کسی بڑی جنگ کا عملی تجربہ حاصل نہیں ہے۔ نہ ہی سعودی عرب کے پاس کوئی نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں۔ وہ خطے میں غیر ضروری دشمنی پیدا کرنا نہیں چاہتا۔ اس وقت سعودی عرب اپنی مکمل توجہ معاشی ترقی پر مرکوز کیے ہوئے ہے، اور یہ کوشش کر رہا ہے کہ وہ عالمی سطح پر ایک معاشی طاقت کے طور پر ابھر سکے۔

سعودی عرب اس وقت ٹورازم پر وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ چاہے وہ نیوم سٹی جیسے ایک ٹریلین ڈالر کا منصوبہ ہو، یا سعودی عرب میں بنیادی ڈھانچے کی بڑی تبدیلیاں، مقصد یہی ہے کہ ٹورازم کو فروغ دیا جائے۔ کھیلوں کے میدان میں بھی سعودی عرب نے خود کو عالمی سطح پر منوانے کی کوشش کی ہے، جیسے کہ فٹبالر رونالڈو کو سعودی لیگ میں لانا، یا مستقبل میں بڑے فٹبال ٹورنامنٹس کا انعقاد کرنا۔ ایسی صورت حال میں سعودی عرب کسی طور نہیں چاہے گا کہ وہ خود کو کسی جنگ کا میدان بنائے۔ کیونکہ اگر خطے میں جنگ چھڑتی ہے، تو نہ صرف ٹورازم کے منصوبے ناکام ہو جائیں گے، بلکہ سعودی عرب کی معیشت ، جو بنیادی طور پر تیل پر منحصر ہے ، بھی سخت متاثر ہوگی۔ اسی لیے یہ کہنا بجا ہے کہ سعودی عرب کے لیے یہ کسی بھی طرح عملی اقدام نہیں ہوگا کہ وہ پاکستان کی جنگی صورت حال کو لے کر ایک فریق بنے اور دیگر ممالک، بالخصوص بھارت، جیسے ابھرتی ہوئی طاقت کے ساتھ تعلقات خراب کرے۔

بلوچ قومی تحریک کو آنے والے دنوں میں کونسے بیرونی چلینجز کا سامنا ہوگا ؟

بلوچ قومی تحریک کے لیے دن بدن چیلنجز زیادہ بنتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ چین کے تعلقات ہوں یا امریکہ کی طرف سے حالیہ دنوں پاکستان کو لے کر نرم گوشہ، بھارت کی فارن پالیسی کا غیر ریاستی عناصر کو لے کر رویہ ہو یا خطے میں اسرائیلی طاقت کی وجہ سے بیشتر ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی بےچینی، یہ تمام صورتِ حال عالمی سطح پر کسی نہ کسی طرح پاکستان کے لیے فائدہ مند رہی ہے۔ لیکن جہاں جنگ ہوتی ہے، وہیں فائدے اور نقصان دونوں صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ صورت حال کو سمجھ کر اس کا فائدہ کیسے اٹھایا جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم اب تک وہ طاقت حاصل کرنے میں ناکام ہیں جس سے دنیا ہمیں پاکستان کے مقابلے میں ایک اہم فریق کے طور پر سمجھے، جس طرح انہوں نے کئی ممالک میں غیر ریاستی عناصر کو لے کر انہیں فریق سمجھا ہے۔ ہم اس وقت تک دشمن کے خلاف ایک انتشاری ماحول پیدا کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم نے دشمن کو نفسیاتی اور سیاسی حوالوں سے کسی حد تک زمین پر شکست دی ہے، لیکن اگر عالمی سطح یا طاقت کے زاویے سے دیکھیں، تو ہم اب تک کئی میلوں سے دور نظر آتے ہیں۔

اس وقت دنیا ہمیں پاکستان کا ایک اندرونی چیلنج سمجھ رہی ہے، یعنی بطور فریق اب تک ہمیں تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری طاقت کا گوریلا حملوں تک محدود ہونا ہے۔ اگر ہمیں دشمن کے خلاف ایک فریق کے طور پر موجود رہنا ہے تو ہمیں اسٹریٹیجک لحاظ سے اہم علاقوں کو اپنے زیر اثر لانے کے لیے بہت جلد کام کرنا ہوگا، بالخصوص ان ساحلی علاقوں کو اپنے زیر اثر لانا جنہیں پاکستان اس وقت اسٹریٹیجک اہمیت کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان اندرونی طور پر کمزور ہونے کے باوجود اس وقت فوجی لحاظ سے چین اور سعودی عرب کی جانب سے کافی فنڈنگ حاصل کر رہا ہے، حتیٰ کہ امریکہ کی جانب سے بھی سالانہ پاکستان کو اربوں ڈالر اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ جہاں مشکلات جنم لیتی ہیں، وہیں فائدے بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کے خلاف ایک طاقت کے طور پر اور ایک فریق کے طور پر سامنے آئیں گے تو آنے والے دنوں میں ہمارے لیے ان ریاستوں کے دروازے کھل سکتے ہیں جو اس وقت پاکستان کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتی ہیں۔ اور ہمارے لیے کسی بھی عالمی قوت کی سپورٹ انتہائی اہم ہے۔

یہ ایک ایسا وقت ہے جہاں ہمیں بڑی کامیابی اور بڑی ناکامی، دونوں صورتوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے کہ اگر ہم کمزور رہے، اگر ہم نے طاقت کے توازن کو سمجھنے میں دیر کر دی، خطے میں بدلتے سیاسی حالات کو سمجھنے اور صحیح فیصلے کرنے میں ناکامی کا سامنا کیا، ہم نے غلطی کی، ہم نے جنگ کو صرف انتشار کے طور پر آگے بڑھانے کی کوشش کی اور واضح پروگرام سامنے رکھنے میں ناکام رہے، واضح پالیسی کی تشکیل میں کمزوری دکھائی، تو یقیناً ہمیں آنے والے دنوں میں سخت جھٹکے لگ سکتے ہیں۔ پاکستان کو نیوکلیئر ہتھیاروں کا ہمیشہ سے فائدہ حاصل رہا ہے لیکن بڑے جنگ کی صورت میں پاکستان کو بڑے پیمانے کی تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اور ایسی صورت حال میں ہم ان حالات کا بہترین فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہمیں اس وقت اپنی طاقت کو معیار (Quality) سے لے کر مقدار (Quantity) تک، ہر سطح پر بڑھانا چاہیے۔ ہمیں جنگ کو سمجھنے، اور اس کے مطابق پالیسیوں کی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک بہتر تنظیم کی ضرورت ہے جو اس ماحول میں ہمارے فائدے کو یقینی بنا سکے۔ ہم مانیں یا نہ مانیں، لیکن ہماری کوتاہی، ناسمجھی، یا سستی، یا اسی طرح کی نرم پالیسی، اور وقت کے ساتھ چیزوں کے خود بخود بہتر ہونے کا انتظار، ہمیں کسی بڑی مشکل میں ڈال سکتا ہے۔ اس لیے، اب وقت ہے کہ ہم دن رات، چوبیس گھنٹے، قومی تحریک کو بنیادی طور پر منظم کرنے پر اپنا بھرپور توجہ دیں۔ ہم ہر لمحے خود کو مضبوط کرنے پر توجہ دیں۔ ہمیں ایک منظم طاقت کی طرف جانا ہوگا، جو اپنی بنیاد سے مضبوط اور علمی بنیاد پر قائم ہو۔

یاد رکھیں، خطے کے سیاسی اثرات کا قومی تحریکوں پر ہمیشہ سے اہم کردار رہا ہے۔ کرد تحریک کی حالیہ دنوں خود کو غیر مسلح کرنے میں جہاں تحریک کی اپنی کمزوریاں اپنی جگہ ہیں، لیکن شام کے حالات کا اس پر کافی اثر ہوا۔ اسی طرح تامل ٹائیگرز کی ناکامی میں بھی خطے کے تعلقات اور اثرات کا کافی اہم کردار رہا۔ ایسی صورتِ حال ہمیں دنیا بھر کی تحریکوں میں دیکھنے کو ملی۔ حالیہ دنوں صرف شام میں بشار الاسد کی بدلتی حکومت نے پورے خطے کی تمام صورتحال پر بدترین اثرات مرتب کیے۔ جہاں حزب اللہ انتہائی کمزور ہوئی، وہیں ایران کو بھی شام کی حکومت کمزور ہونے سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس کا اسٹریٹیجک دفاع اب ختم ہو چکا ہے۔ حماس کی کمزوری میں شام کے بدلتے حالات اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ صرف ایک حکومت کے بدلنے سے پورے خطے پر اثرات مرتب ہوئے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ آنے والے دنوں میں ایران پھر سے کسی حملے کا نشانہ بن سکتا ہے۔ افغانستان میں موجود کمزور حکومت کسی بھی وقت پاکستان کے بڑے حملے کا نشانہ بن سکتی ہے۔ چین کی بڑھتی قوت بھی جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو بدلنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اس وقت ہمارے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہم ایک عظیم طاقت کو پیدا کرنے پر توجہ دیں۔ ایک ایسی طاقت جو بطور Deterence کام کر سکے، جو دفاع کرنے کے قابل ہو، جو نئی ٹیکنالوجی کو اپنا سکے، جو جنگ کے نئے بین الاقوامی آرڈر میں بہترین فیصلوں کی صورت میں طاقت کو اپنی طرف لا سکے۔ آنے والے دن، کئی حوالوں سے اہم ہونے والے ہیں۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ ہم ان حالات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں یا ہمیشہ کی طرح ان حالات کا شکار ہوکر پیچھے کی طرف جائیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔