مبارک قاضی: بلوچستان کا شعلہ سخن اور انقلاب کا آئینہ – معید بلوچ

45

مبارک قاضی: بلوچستان کا شعلہ سخن اور انقلاب کا آئینہ

تحریر: معید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی سے اٹھنے والی وہ آواز ہیں، جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف بلوچ قوم کے دل جیتے بلکہ ظلم، ناانصافی اور جبر کے خلاف ایک ایسی انقلابی تحریک کو جنم دیا جو آج بھی بلوچستان کے کونے کونے میں گونج رہی ہے۔ وہ محض ایک شاعر نہیں تھے، بلکہ ایک مزاحمتی آواز، ایک فکری بغاوت، اور بلوچ قومی شعور کا ایک روشن مینار تھے۔ ان کی شاعری بلوچستان کی مٹی سے جڑی ہوئی تھی، جو اس کی بنجر زمینوں، سمندر کی لہروں، اور عوام کے درد کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھی۔ یہ مضمون مبارک قاضی کی انقلابی جدوجہد، ان کی شاعری کے پیغام، اور بلوچ قومی تحریک میں ان کے کردار پر روشنی ڈالتا ہے۔

ایک شاعر کی انقلابی روح

مبارک قاضی کی شاعری کوئی محض الفاظ کا مجموعہ نہیں تھی، بلکہ ایک ایسی چنگاری تھی جو بلوچ عوام کے دلوں میں مزاحمت کی آگ بھڑکاتی تھی۔ ان کے اشعار بلوچستان کی ثقافت، تاریخ، اور جدوجہد کے عکاس تھے۔ وہ اپنی شاعری میں سماجی ناانصافی، استحصال، اور قومی جبر کے خلاف آواز اٹھاتے تھے۔ ان کے اشعار میں ایک طرف سمندر کی گہرائی اور بلوچستان کی زمین کی سادگی نظر آتی ہے، تو دوسری طرف ظلم کے خلاف بغاوت کا عزم۔ وہ بلوچستان کی وسائل پر عوام کے حق، اور قومی شناخت کے تحفظ کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ ان کی شاعری بلوچ نوجوانوں کے لیے ایک نعرہ بن گئی، جو انہیں اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی ترغیب دیتی تھی۔
بلوچ قومی تحریک اور مبارک قاضی کی جدوجہد صرف قلم تک محدود نہیں تھی۔ وہ بلوچ قومی تحریک کا ایک فعال حصہ تھے۔ انہوں نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے اپنی آواز کو بلند کیا۔ ان کی زندگی ایک ایسی کتاب تھی جس کا ہر صفحہ بغاوت، عزم، اور قربانی سے بھرا ہوا تھا۔

پاک بلوچ ایسوسی ایشن اور ادبی انقلاب

مبارک قاضی نے بلوچی زبان و ادب کو فروغ دینے کے لیے 1983ء میں عابد آسکانی کے ساتھ مل کر “پاک بلوچ ایسوسی ایشن” قائم کی۔ اس تنظیم نے بلوچی ادب کو نئی جہت دی۔ ادبی تقریبات، ورکشاپس، اور بلوچی کتابوں کی اشاعت کے ذریعے انہوں نے بلوچی زبان کو زندہ رکھا اور نئی نسل کو اس سے جوڑا۔ ان کی کوششوں سے بلوچی شاعری کو نہ صرف بلوچستان بلکہ عالمی سطح پر بھی پذیرائی ملی۔ انہوں نے نوجوان شاعروں اور ادیبوں کو آگے بڑھنے کی ترغیب دی اور بلوچی زبان کو ایک انقلابی آواز بنایا۔

ان کی شاعری میں بلوچستان کی ثقافتی شناخت کو تحفظ دینے کا عزم نمایاں تھا۔ وہ بلوچستان کی زمین، اس کے سمندر، اور اس کے لوگوں کی کہانیوں کو اپنی شاعری میں سمیٹتے تھے۔ ان کی شاعری میں ایک طرف بلوچستان کی خوبصورتی تھی، تو دوسری طرف اس کی لوٹ مار اور استحصال کے خلاف احتجاج۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے بلوچ قوم کو ایک ایسی آواز دی جو ان کے حقوق کے لیے لڑنے کا حوصلہ دیتی تھی۔ وہ بلوچ قوم پرست جلسوں میں اپنی شاعری سے لوگوں کے دلوں کو گرمانے کا ہنر جانتے تھے۔ ان کی زندگی میں سادگی اور بغاوت کا ایک انوکھا امتزاج تھا۔ وہ کبھی ظلم کے سامنے جھکے نہیں اور نہ ہی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ کیا۔
ان کی شاعری اور شخصیت کی وجہ سے وہ بعض اوقات تنقید کا نشانہ بھی بنے، لیکن انہوں نے ہمیشہ اپنی راہ خود بنائی۔ ان کی زندگی ایک ایسی داستان تھی جو بلوچستان کے ہر فرد کے لیے ایک مثال ہے کہ کس طرح ایک شخص اپنی آواز کے ذریعے انقلاب لا سکتا ہے۔

16 ستمبر 2023ء کو مبارک قاضی تربت میں اپنے دوست کے ہاں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کی وفات نے بلوچستان کے ادبی اور سیاسی حلقوں میں ایک عظیم خلا چھوڑ دیا۔ ان کی تدفین پسنی میں ہوئی۔

مبارک قاضی کی زندگی اور شاعری ایک ایسی داستان ہے جو بلوچستان کے ہر دل میں گونجتی ہے۔ وہ ایک شاعر سے بڑھ کر ایک انقلابی تھے، جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے بلوچ قوم کو جبر کے خلاف لڑنے کا حوصلہ دیا۔ ان کی شاعری بلوچستان کی زمین، اس کے سمندر، اور اس کے لوگوں کی آواز ہے۔ وہ اپنی زندگی میں ظلم کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے اور اپنی شاعری کے ذریعے ایک ایسی تحریک کو جنم دیا جو آج بھی بلوچ نوجوانوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

مبارک قاضی کی جدوجہد ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ایک قلم، ایک آواز، اور ایک عزم کس طرح ایک قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ ان کی شاعری بلوچستان کے لیے ایک لازوال ورثہ ہے، جو آنے والی نسلوں کو اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی ترغیب دیتی رہے گی۔ مبارک قاضی اب ہم میں نہیں ہیں، لیکن ان کی آواز ان کے اشعار میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔

انہوں نے مظلوم ماہی گیروں اور کسانوں کی محرومیوں کو اپنی شاعری میں جگہ دی اور انہیں یہ احساس دلایا کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ وہ روشن خیال اور ترقی پسند سوچ کے مالک تھے، جنہوں نے بلوچی ادب کو ایک نئی جہت دی۔ مبارک قاضی کی زندگی صرف کاغذ اور قلم تک محدود نہیں رہی بلکہ عملی جدوجہد سے جڑی رہی۔ مبارک قاضی نے صرف اپنی جوانی اس جدوجہد میں صرف کی بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی قربانیاں دیں۔ وہ مظلوم کی آواز اور محکوم کا نعرہ بن گئے تھے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔