بلوچ قومی شاعر مبارک قاضی کی دوسری برسی پر بلوچستان و سندھ میں تقریبات کا انعقاد

5

بلوچ قومی شاعر واجہ مبارک قاضی کی دوسری برسی کے موقع پر بلوچستان اور سندھ کے مختلف شہروں میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔

یہ تقریبات بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے منعقد کی گئیں جن کا مقصد مبارک قاضی کی ادبی و قومی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرنا تھا۔

بی ایس اے سی کی جانب سے تمام زونز کو ہدایت دی گئی تھی کہ اس موقع پر مختلف پروگرامز کا انعقاد کیا جائے اسی سلسلے میں پنجگور زون نے مکران یونیورسٹی میں ایک پروگرام کا اہتمام کیا، جبکہ ٹنڈو جام زون کے تحت ایک تقریب ہوئی جس میں مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔

اس موقع پر بلوچ کلچر اینڈ نالج کی جانب سے ایک کتب اسٹال بھی لگایا گیا، بساک ملیر زون نے واجہ قاضی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ایک پروگرام منعقد کیا جس میں مختلف سیشنز رکھے گئے، ان میں شرکاء نے مبارک قاضی کی زندگی اور ادبی خدمات پر روشنی ڈالی۔

مزید برآں بساک کی جانب سے سندھ کے علاقے جامشورو و حیدرآباد اور کراچی میں مختلف زونز نے تقریبات کا انعقاد کیا جن میں مبارک قاضی کو ان کی قومی و ادبی خدمات پر یاد کیا گیا۔

بی ایس اے سی کے مطابق یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا اور ہر اس بلوچ ادبی و سیاسی شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کیا جائے گا جس نے اپنی زندگی بلوچ قوم کی خدمت کے لیے وقف کی۔

مبارک قاضی کے دوسری برسی کے موقع پر بساک اوتھل زون کی جانب سے بھی ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تاہم یہ پروگرام یونیورسٹی انتظامیہ نے روک دیا اور پولیس کو بلا کر تقریب کو ختم کرایا گیا، تنظیم نے اس عمل کو مبارک قاضی کی ادبی وراثت کی توہین قرار دیا۔

منعقد پروگرام میں شرکاء نے واجہ مبارک قاضی کے زندگی اور کردار پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے نصف صدی سے زائد عرصے تک اپنی شاعری سے بلوچ قوم کے دلوں میں ایک منفرد مقام بنایا ان کی شاعری ہمیشہ اپنی قوم اور زمین سے وابستہ رہی، جس میں انہوں نے سماج پر ڈھائے جانے والے ظلم و زیادتیوں کو بے باکی سے اجاگر کیا ان کی انقلابی شاعری کے باعث انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔

شرکاء نے کہا ان کے مشہور شعری مجموعوں میں زرنوشت، مانی منی ماتیں وطن، شاگ ماں سبزیں ساوڑء، منی عہدے غم ء قصہ اور دیگر شامل ہیں وہ نہ صرف ایک شاعر بلکہ بلوچ قوم کی فکری و انقلابی تحریک کے استعارے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

شرکاء کا مزید کہنا تھا کہ مبارک قاضی کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا اور نوجوان شاعروں کے لیے مشعلِ راہ بنے گا ان سے یہی امید کی جاتی ہے کہ وہ قاضی کے فلسفے پر عمل پیرا رہتے ہوئے اپنی مٹی اور قوم سے وفاداری نبھائیں گے۔