بی ایل اے مجید برگیڈ کی دشت حملے کی ویڈیو شائع

1

بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے دشت میں پاکستانی فورسز کے بسوں کے قافلے پر فدائی حملے کی ویڈیو بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے آفیشل چینل ہکل پر جاری کردی۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستانی فورسز کے عسکری قافلے کی بسیں روڈ پر حرکت کر رہی ہیں، جب پہلے سے کھڑی ایک گاڑی کے قریب پہنچتے ہی ایک زوردار دھماکہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک بس مکمل طور پر تباہ ہو جاتی ہے۔

دھماکے کے فوراً بعد دیگر حملہ آور بھی بسوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، اور فدائین تنظیم کے دیگر اراکین سے اپنی کارروائیوں کے دوران ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے سنے جا سکتے ہیں۔ حملہ آوروں کے مطابق اس حملے میں بسوں میں سوار تمام اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔

بی ایل اے کے مطابق، مجید بریگیڈ کے فدائی یونٹ نے بدھ، 18 ستمبر 2025 کو کنچتی کراس کے مقام پر پاکستانی فوج کے ایک بڑے قافلے کو نشانہ بنایا۔ یہ قافلہ چھ بسوں پر مشتمل تھا، جس میں قابض فوج کے درجنوں اہلکار سوار تھے اور ان کی حفاظت کے لیے ایک علیحدہ عسکری اسکواڈ بھی ہمراہ تھا۔ قافلہ ایک روز قبل کراچی سے گوادر پہنچا تھا اور حملے کے دن گوادر سے تربت کی جانب روانہ ہو رہا تھا۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ حملہ دوپہر ایک بج کر پانچ منٹ پر مکمل منصوبہ بندی، معلوماتی تیاری اور عسکری نظم کے تحت کیا گیا۔

ترجمان نے کہا کہ فدائی کارروائی کا پہلا مرحلہ اس وقت شروع ہوا جب سنگت الطاف عرف چاکر نے بارود سے بھری گاڑی قافلے کی مرکزی بس سے ٹکرا دی، جس کے نتیجے میں ایک بڑا دھماکہ ہوا اور بس میں سوار تمام اہلکار موقع پر ہلاک ہو گئے۔ دھماکے کے فوراً بعد فدائی سنگت گہرام عرف زگرین اور خلیل عرف کلمیر نے باقی بسوں اور حفاظتی اسکواڈ کو دشمن کے حصار میں گھس کر نشانہ بنایا۔ دشمن کی جوابی فائرنگ کے باوجود حملہ جاری رہا اور دشمن کی نقل و حرکت منجمد ہو گئی۔ حملہ تقریباً تیس منٹ تک جاری رہا، اور جب دونوں فدائین کے گولیاں ختم ہو گئے تو انہوں نے اپنی جانیں قربان کر دی، جیسا کہ بی ایل اے کے فدائی اصولوں کے مطابق عمل کیا جاتا ہے۔

بی ایل اے کے ذرائع اور انٹیلیجنس ونگ “زراب” کے مطابق اس حملے میں پاکستانی فوج کے کم از کم 32 اہلکار ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے، جن میں کئی افسران بھی شامل ہیں۔ تین سے زائد بسیں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں، اور قابض فوج کو زخمیوں کو منتقل کرنے اور لاشیں نکالنے میں کئی گھنٹے لگے۔ فضائی کمک، ڈرون سرویلنس اور زمینی دستوں کے باوجود قابض فوج کو امدادی کارروائیوں میں دیر کا سامنا کرنا پڑا۔