اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سیکریٹری جنرل حسین طہٰ نے قطر کی خودمختاری اور سلامتی پر اسرائیلی حملے کی تنظیم کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
پیر کو دوحہ میں عرب اسلامی سربراہی اجلاس سے خطاب میں انھوں نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اسرائیل کو اس کے تمام جرائم کا جوابدہ ٹھہرایا جائے، اور کہا کہ ’قطر پر حملہ فلسطینی عوام کے خلاف اس کے جرائم کی توسیع ہے۔‘
انھوں نے جنگ بندی، پوری غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی فراہمی، وہاں سے اسرائیلی فوج کے انخلا اور فلسطینی حکومت کو پٹی میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے بااختیار بنانے کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی ضرورت پر زور دیا۔
انھوں نے اپنے اعتماد کا اظہار کیا کہ اس سربراہی اجلاس کے نتائج سے عرب اسلامی یکجہتی کو تقویت ملے گی۔
عالمی برادری نے اسرائیل کو قانون سے بالاتر ہونے کی اجازت دے دی ہے – اردن کے شاہ عبداللہ دوم
دوحہ سربراہی اجلاس میں اپنی تقریر میں اردنی شاہ عبداللہ دوم نے کہا ہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے میں غیر قانونی اقدامات کے ذریعے دو ریاستی حل کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی ہیں اور منصفانہ امن کے حصول کے امکانات کو نقصان پہنچایا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکومت ’لبنان اور شام کی سلامتی اور استحکام کو مسلسل خطرہ بنا رہی ہے اور آج وہ قطر کی خودمختاری اور سلامتی پر حملہ کر رہی ہے۔‘
شاہ نے مزید کہا کہ ’قطر کے خلاف یہ جارحیت اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیلی خطرے کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہمارا ردعمل واضح، فیصلہ کن اور دو ٹوک ہونا چاہیے۔‘
قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد اس وقت دارالحکومت دوحہ میں عرب لیگ اور دیگر اسلامی ممالک کا مشترکہ اجلاس جاری ہے۔
اردن کے بادشاہ نے بین الاقوامی برادری کو جزوی طور پر ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حکومت ’اپنی تسلط پر قائم ہے کیونکہ عالمی برادری نے اسے قانون سے بالاتر ہونے کی اجازت دی ہے۔‘
انھوں نے اس ’انتہا پسند‘ حکومت کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ عرب اور اسلامی کارروائی کے لیے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
قطر پر اسرائیلی حملہ ’جان بوجھ کر پرامن حل کے امکانات کو ختم کرتا ہے‘
اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عراقی وزیر اعظم محمد شیعہ السوڈانی نے کہا کہ قطر پر اسرائیلی حملہ خطرناک اضافہ اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ اس حملے سے بحران کو کم کرنے کی کوششوں کو خطرہ لاحق ہوا اور یہ ایک منفی پیغام ہے کہ ’جان بوجھ کر پرامن حل کے امکانات کو ختم کر دیا گیا ہے۔‘
انھوں نے نشاندہی کی کہ اسرائیل اس حد تک چلا گیا ہے کہ وہ عوامی سطح پر طاقت کے ذریعے بین الاقوامی سرحدوں کو تبدیل کرنے کی بات کرتا ہے، جس سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی مثال قائم ہوتی ہے۔
انھوں نے وضاحت کی کہ غزہ اور مغربی کنارے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ’اب صرف قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر بے مثال انسانی مصائب اور مجموعی طور پر علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہے‘۔