کراچی پریس کلب کے باہر لاپتہ طالب علم زاہد علی بلوچ کے والدین کے احتجاجی دھرنے میں اُس وقت تعطل آیا جب زاہد کے والد عبدالحمید بلوچ کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی، جس کے باعث دھرنا ایک روز کے لیے ملتوی کردیا گیا ہے۔
اتوار کی صبح عبدالحمید بلوچ کی طبیعت بگڑ گئی وہ پہلے ہی ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہیں اہلِ خانہ انہیں مقامی کلینک لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے انہیں آرام کا مشورہ دیا۔
اس صورتحال کے پیشِ نظر احتجاجی کیمپ میں جاری بھوک ہڑتالی کیمپ کو عارضی طور پر ختم کرنا پڑا۔
زاہد علی کے والدین اور اہلِ خانہ گزشتہ 41 روز سے کراچی پریس کلب کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان کے نوجوان بیٹے کو چند ماہ قبل جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا اور وہ تاحال نامعلوم مقام پر قید ہیں۔
زاہد علی کراچی یونیورسٹی کا طالب علم ہے وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ رکشہ بھی چلاتا تھا تاکہ گھر کے اخراجات پورے کرسکے اور اپنے بیمار والد کے علاج کا بندوبست کرسکے۔
اہلِ خانہ کے مطابق ایک روز پاکستانی فورسز نے زاہد کو رکشہ سمیت حراست میں لے لیا اور اس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں۔
اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ وہ اس سے قبل بھی ماڑی پور کے قریب دھرنا دے چکے ہیں، اُس وقت کراچی پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کے بیٹے کے حوالے سے معلومات فراہم کی جائیں گی، تاہم کئی روز گزرنے کے باوجود کسی قسم کی اطلاع یا رابطہ نہیں کیا گیا۔
زاہد علی کی والدہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیٹا والدین کا واحد سہارا تھا گھر کا چولہا اسی کی محنت سے جلتا تھا اور وہ اپنے بیمار والد کے علاج کے لیے مسلسل جدوجہد کرتا رہا لیکن جب سے زاہد جبری گمشدگی کا شکار ہوا ہے وہ شدید ذہنی اذیت اور کرب میں مبتلا ہیں اور ان کے بیمار والد کی حالت مزید خراب ہوگئی ہے۔
اہلِ خانہ نے ایک بار پھر حکومت، عدلیہ اور انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی ہے کہ زاہد علی کو منظرِ عام پر لایا جائے اور اس کی بحفاظت بازیابی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔