اسلام آباد میں بلوچ لواحقین کے دھرنے کو دو ماہ مکمل ہوگئے ہیں تاہم حکومتی سطح پر ان کے مطالبات پر کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ اس عرصے کے دوران انہیں ریاستی اداروں اور انتظامیہ کی جانب سے تعاون کے بجائے صرف حراسانی اور مشکلات کا سامنا رہا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی گرفتار قیادت اور جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کے مطالبے کے ساتھ لواحقین گذشتہ دو ماہ سے اسلام آباد میں دھرنے پر بیٹھے ہیں۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے دو بنیادی مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہیں جن میں بی وائی سی کی قیادت کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا خاتمہ اور بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کو ختم کرنا شامل ہے۔
یاد رہے کہ جولائی میں اسلام آباد میں لواحقین کی جانب سے لگایا گیا احتجاجی کیمپ پہلے ہی روز پولیس نے ہٹا دیا تھا جس کے بعد سے مظاہرین کھلے آسمان تلے دھرنا دینے پر مجبور ہیں۔
لواحقین کے مطابق اس دوران انہیں پریس کلب جانے سے روکا گیا احتجاجی مقام کو عوام اور میڈیا سے اوجھل رکھنے کے لیے اردگرد ٹینٹ اور کنٹینر لگائے گئے اور ان کے رہائش کے مقام پر پانی و بجلی بند کرکے زبردستی بے دخل کیا گیا۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ اسلام آباد اس لیے آئے کہ ریاست کا مؤقف ہے کہ بلوچ بات نہیں کرتے یا بات کرنا نہیں چاہتے، ہم دو ماہ سے یہاں بات کرنے بیٹھے ہیں مگر ہمیں مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق جو رویہ اسلام آباد میں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے وہ بلوچستان میں عوام بخوبی دیکھ رہے ہیں چاہے پاکستانی میڈیا ہم پر قدغن لگائے یا بلوچستان انٹرنیٹ پر پابندیاں عائد ہوں عوام سب کچھ دیکھ اور سمجھ رہی ہے۔
لواحقین کا مزید کہنا تھا کہ بجائے ان کے مطالبات سنے جانے کے بی وائی سی کی قیادت کو مزید غیر قانونی ریمانڈ پر بھیجا جا رہا ہے اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تیز تر ہوگیا ہے ریاست ہمیں یہ پیغام دے رہی ہے کہ آپ جتنے بھی مطالبات کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
انہوں نے اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے اداروں اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کا نوٹس لیں اور حکومت کو جوابدہ بنائیں۔