بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ اور سندھ کے شہر کراچی میں بلوچ لواحقین کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری ۔
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں کے خلاف طویل عرضے سے قائم احتجاجی کیمپ کو آج 5936 دن مکمل ہوگئے۔
اس موقع پر مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے جبری گمشدگیوں کی روک تھام اور لاپتہ افراد کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا۔
علاوہ ازیں کراچی میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاجی کیمپ مسلسل جاری ہے۔ کراچی پریس کلب کے باہر جبری گمشدگیوں کے خلاف لگایا گیا احتجاجی کیمپ منگل کو اپنے 37 ویں روز میں داخل ہوگیا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی بازیابی تک احتجاج جاری رکھیں گے۔
لاپتہ نوجوان زاہد علی بلوچ کے والد عبدالحمید بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیٹا ایک بے قصور اور محنتی نوجوان ہے جو اپنے خاندان کا سہارا بنا ہوا تھا، لیکن آج وہ ان سے چھین لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر زاہد پر کوئی الزام ہے تو شفاف عدالتی کارروائی کی جائے، نہ کہ خفیہ اور ماورائے آئین طریقے اختیار کیے جائیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ’’قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے اور کسی کو یہ اختیار نہیں کہ آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ کر شہریوں کو سزا دے۔‘‘
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں سے درجنوں بلوچ نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ ان میں ماری پور اور لال بکھر ہاکس بے کے رہائشی شیراز بلوچ، سیلان بلوچ، سرفراز بلوچ، رمیز بلوچ، رحیم بخش بلوچ اور رحمان بلوچ شامل ہیں۔ یہ تمام نوجوان متوسط اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی گمشدگی نے اہل خانہ کو شدید ذہنی و جسمانی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ بارش ہو یا دھوپ، کوئی بھی رکاوٹ ان کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتی۔ ان کا واحد مطالبہ ہے کہ ان کے پیاروں کو بحفاظت واپس لایا جائے یا اگر ان پر کوئی الزام ہے تو عدالت میں پیش کر کے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔