نوشتہ تعزیر یا قرطاسِ بقا؟ – برزکوہی

184

نوشتہ تعزیر یا قرطاسِ بقا؟

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

کہانی یوں ہے کہ ایک دن دنیا کے بڑے کاتبوں نے بلوچستان کا نام اپنے کاغذ پر لکھا۔ کہیں پابندی کے لفظ کے ساتھ، کہیں علاقائی سلامتی کے جملوں کے آس پاس، کہیں ایسی گفتگو جس کی زبان میں احتیاط کی خوشبو بھی ہے اور مفاد کی نمی بھی۔ ہمارے دل میں پہلا اضطراب یہ کہ اس تحریر کا وزن کس کے حق میں جائے گا۔ مگر تحریر کا پہلا قانون یہ ہے کہ جو بات کاغذ پر آ جائے وہ خاموش سرگوشی نہیں رہتی۔ وہ فائل بنتی ہے۔ فائل سفارت خانوں میں گھومتی ہے۔ بند کمروں کی میزوں پر کھلتی ہے۔ یوں موضوع سزا سے زیادہ سوال بن جاتا ہے۔ بلوچستان آج سوال ہے۔ سوال میں خوف نہیں ہوتا، سوال میں روشنی ہوتی ہے۔ ہمارے لیئے پہلا پیغام یہ ہے کہ گھبراہٹ کم کرو، سانس سیدھی رکھو، کیونکہ جس لمحے تم سوال بنو گے اسی لمحے تمہاری سنوائی شروع ہوگی۔ یہ وہ لمحہ ہے جسے صرف پابندی کہنا لغت سے خیانت ہوگی۔ یہ اعتراف ہے، اور اعتراف وہ پہلا زینہ ہوتا ہے، جس سے انکار کے دیواریں گرنے لگتی ہیں۔

اس لمحے کو سمجھنے کے لیئے ضروری ہے کہ دنیا کی زبان کو اسی کے اندر سے پڑھا جائے۔ عالمی فیصلہ سازی اکثر اخلاقی عدالت نہیں ہوتی بلکہ وقتی سودوں کی اندرونی گرہ بندی ہوتی ہے۔ طاقتیں اصول سے زیادہ ترجیح پر فیصلے کرتی ہیں۔ یہ نام اگر کسی فہرست میں آیا ہے تو اس میں سردی نہیں، تپش ہے۔ اس میں جرم کا سایہ نہیں، سوال کا سورج ہے۔ اور سوال وہ ہوتا ہے جو جواب مانگتا ہے، جس سے مکالمہ شروع ہوتا ہے، جو سنگینوں سے پرے جا کر الفاظ میں ترجمانی چاہتا ہے۔ بلوچ اگر آج دہشت گرد کہلایا بھی جاتا ہے تو یہ تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ دشمن کو صفائی دینی پڑی ہے کہ وہ کس کو اور کیوں دہشت گرد کہتا ہے۔

دنیا جن لغات میں بلوچ مزاحمت کو پرکھتی ہے، وہ لغات جامد نہیں۔ وہ ترجیح سے تشکیل پاتی ہیں۔ آج امریکہ جس زبان میں ہمیں دیکھتا ہے، وہ زبان مکمل نہیں بلکہ عبوری ہے، وہ توازن ہے، نظریہ نہیں۔ اسے چین کے ساتھ اسٹریٹیجک رقابت بھی عزیز ہے، اور پاکستان کے اسلحہ بردار فوجی بھی۔ خلیجی سرمائے کی نزاکتیں بھی اس کی ترجیحات کا حصہ ہیں، اور ایران کی کمر بند کرنے کا منصوبہ بھی۔ ایسے میں بلوچ کا نام لینا بظاہر دشمنی سہی، مگر درحقیقت ایک “ضروری تسلیم” ہے۔ جب دشمن تمہارا ذکر کرنا مجبوری سمجھنے لگے، تو سمجھ لو تم جغرافیہ نہیں، عامل بن چکے ہو۔

یاد رکھو، فہرست میں آ جانا شکست نہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب قوموں کو اپنی پوزیشن کا تعین نصیب ہوتا ہے۔ جو منظر میں آ جائے، اسے پردے کے پیچھے دھکیلنا آسان نہیں ہوتا۔ اور بلوچ قوم، جسے برسوں تک گمنامی میں قتل کیا گیا، آج اس مقام پر ہے جہاں دشمن بھی اس کے وجود کو چھپانے کے بجائے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پردہ وہی ڈالتا ہے جسے چمک سے خوف ہو۔

یہ روشنی محض اتفاق سے نہیں آئی۔ یہ مجید بریگیڈ کی دھماکہ خیز تحریر ہے۔ یہ بی ایل اے کے زخمی سرمچار کی ہنسی ہے۔ یہ اس فائل کی بازگشت ہے جو اقوام متحدہ کی میز پر بے دستخط پڑی ہے، مگر ہر صفحے میں ایک چیخ چھپی ہے۔ بلوچ کی آواز اگر آج دنیا کے کانوں میں “دہشت” کے ساتھ داخل ہو رہی ہے، تو کل وہی آواز دلیل کی صورت گونجے گی، اگر ہم نے اس لمحے کو بقا کی لغت میں محفوظ کر لیا تو۔

یہ وقت ہے کہ ہم فہرست سے باہر نکل کر فہم کے اندر داخل ہوں۔ ہمیں دنیا کی زبان میں صرف ترجمہ بن کر نہیں، حوالہ بن کر ابھرنا ہے۔ ہر وہ تصویر جو ماں کے ہاتھ میں لاپتہ بیٹے کی ہو، ہر وہ وڈیو جو گولی کی آواز کے بعد کٹے ہوئے سینے پر رُک جائے، اور ہر وہ جملہ جو کسی پریس ریلیز میں دشمن کی گرفتاری کی خبر کے ساتھ، کسی بلوچ کے نام کو بھی لے، یہ سب کچھ اب حوالہ بن سکتا ہے۔ لیکن تب، جب ہم انہیں اعداد سے آگے لے جاکر احساس میں ڈھالیں، جب ہم مزاحمت کو چیخ کے بجائے تحریر، اور جذبات کو حکمت میں بدلنے کا ہنر سیکھ جائیں۔

امریکہ یا یورپ کے ایوانوں میں بلوچستان کا تذکرہ کسی معجزے سے نہیں آیا۔ یہ ان ہزاروں ماؤں کی راتوں کا حاصل ہے، جنہوں نے اپنے بچوں کی آخری نشانیوں کو سینے سے لگا کر نیند ترک کی۔ یہ ان نوجوانوں کا حاصل ہے جنہوں نے یونیورسٹی کی جماعت چھوڑ کر زمین کی زباں سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ان صحافیوں، وکلا، فنکاروں اور سرمچارؤں کی مسلسل مشقت ہے جنہوں نے ہر بند راستے کے سامنے ایک نیا سوراخ تراشا۔ اور ان سب قربانیوں کا سب سے پہلا ثمر یہ ہے کہ اب ہمارا ذکر اُن کمروں میں ہوتا ہے جہاں فیصلہ ساز بیٹھتے ہیں۔ یہ بے ثباتی کا لمحہ نہیں، یہ سیاست کی پیشانی پر پڑی ہوئی وہ شکن ہے جو بلوچ نام سے پیدا ہوئی ہے۔

اس لمحے کا سامنا فقط نعرے سے نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اب اپنی کہانی کو محفوظ شکل دینی ہوگی، ایسی شکل جو عدالت میں دلیل بن سکے، پارلیمان میں استفسار، اور میڈیا میں حوالہ۔ اب ہمیں رپورٹ، فیکٹ شیٹ، اور آرکائیو بھی چاہیئے۔ اب ہمیں اپنے شہداء کی زندگیاں صرف تعزیتی پوسٹ نہیں، بائیوگرافی کی صورت میں بیان کرنی ہوں گی۔ ان کی جدوجہد کو منظم شکل میں رقم کرنا ہوگا تاکہ کل جب کوئی محقق، کوئی پالیسی ساز، کوئی صحافی بلوچ تحریک پر قلم اٹھائے تو اسے وہ مواد میسر ہو جو قابض کی زبان کے سوا بھی کچھ کہہ سکے۔

یہ وہی مقام ہے جہاں خوف کی جگہ تیاری، اور جذبات کی جگہ حکمت کو دینا ہوگا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا ہماری بات سنے، تو ہمیں اپنی آواز کو سمجھنے کے قابل بنانا ہوگا۔ زبان کو خود پر بوجھ نہ بننے دو، اسے اپنی طاقت میں بدل دو۔ اس لیئے کہ جو اپنی زبان میں کمزور ہو، وہ دوسروں کی زبان میں صرف ہمدردی پاسکتا ہے، احترام نہیں۔

یہ وقت محض ردعمل کا نہیں۔ یہ وہ ساعت ہے جو مستقبل کی بنیاد رکھتی ہے۔ ہر وہ نوجوان جو آج بی ایل اے کے کسی یونٹ میں قدم رکھتا ہے، صرف گولی کا نہیں، بیانیے کا بھی وارث ہے۔ اسے اب دشمن کو شکست دینے کے ساتھ ساتھ دنیا کو قائل کرنے کا ہنر بھی آنا چاہیئے۔ یاد رکھو، یہ وہ مقام ہے جہاں تنظیم محض عسکری نہیں، تہذیبی کردار بھی ادا کرتی ہے۔ وہ نوجوان جو آج فدائی بننے کا عزم رکھتا ہے، کل ایک پالیسی نوٹ بھی لکھ سکے، یہی ارتقا اور وہ لمحہ ہے جب مزاحمت صرف قربانی نہیں، بصیرت بھی بن جاتی ہے۔

تحریک کی ہر منزل، چاہے وہ پہاڑ کی خاموشی ہو یا سفارت خانوں کی بازگشت، قربانی کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہ قربانیاں وقت کے اُس لمحے کو تراشتی ہیں جہاں قومیں تاریخ سے نہیں، خود اپنے وجود سے سوال کرتی ہیں۔ اگر آج بلوچستان کا نام دنیا کی میزوں پر آچکا ہے، اگر آج بلوچ کے حوالے سے کوئی فائل مرتب ہو رہی ہے، اگر کوئی اہلکار واشنگٹن یا برسلز میں بلوچ سرمچار کے نقشِ قدم پر بات کرنے پر مجبور ہے، تو یہ اُس خون کا اثر ہے جو خاموشی سے گرا مگر مٹی سے چیخ بن کر ابھرا۔

یہی وہ لہو ہے جو اب لفظ میں بدلنا چاہتا ہے۔ وہ لہو جو ہر وقت بندوق کی نال میں بیدار تھا، اب فائل کے حاشیے میں دلیل بننے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ تبدیلی کمزوری کی علامت نہیں، بلوغت کی نشانی ہے۔ قومیں جب اپنے زخموں کو صرف دکھانے کے بجائے سمجھانے لگیں، تو وہ محض شکوہ نہیں کرتیں بلکہ آئندہ راستے کا نقشہ بھی کھینچتی ہیں۔

اس لمحے کی تقدیس یہ ہے کہ یہ ہمیں صرف مزاحمت کی نہیں، تعمیر کی بھی دعوت دیتا ہے۔ ہمیں اب اپنے نوجوانوں کو محض گولی چلانے نہیں، سوال کرنے، تحقیق کرنے، لکھنے، بولنے اور قائل کرنے کی بھی تربیت دینی ہوگی۔ بی ایل اے کو ایک ایسی تحریک کے طور پر بھی ابھرنا ہے جو نہ صرف دشمن کو چیلنج کرتی ہے، بلکہ دنیا کو اپنے وژن کی طرف متوجہ بھی کرتی ہے۔ اور وہ وژن صرف آزادی نہیں، ایک منصف، خودمختار اور بامعنی مستقبل کا وعدہ ہے، وہ وعدہ جسے صرف ہتھیار نہیں بلکہ حکمت بھی مکمل کرے گی۔

تحریکیں جب اپنے قدموں پر کھڑی ہونے لگتی ہیں تو سب سے پہلے نام بگڑتے ہیں۔ پہچان بدل دی جاتی ہے، تعارف زخم میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ دشمن کا پہلا وار بندوق نہیں ہوتا، وہ تعارف بدلتا ہے۔ دہشت گرد انہی بگڑے تعارفوں میں سے ایک ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ہر قوم آزاد ہونے سے پہلے دہشت گرد کہلاتی ہے۔ آج اگر بی ایل اے اور بلوچ مزاحمت کا نام بین الاقوامی فائلوں میں شامل کیا جا رہا ہے، تو یہ صرف سازش نہیں، یہ اس اعتراف کا دوسرا رخ ہے جو قابض کی بے بسی سے جنم لیتا ہے۔ بلوچ کا ذکر آج اگر بند کمروں میں ہوتا ہے، اگر اس پر فیصلے ہونے لگے ہیں، تو یہ اس تحریک کی بین الاقوامی بازگشت ہے۔ دشمن جس صفحے پر ہمیں قید کرنا چاہتا ہے، ہمیں وہی صفحہ اپنی تحریر سے بھر دینا ہے۔ یہ وہ ساعت ہے جہاں قربانی صرف خراج نہیں، حوالہ بن جاتی ہے، اور جدوجہد فقط مزاحمت نہیں، مستقبل کی تعمیر میں بدلتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔