غنی بلوچ جبری گمشدگی کے اندھیرے میں
تحریر: زاویان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جسے دنیا انصاف، انسانی حقوق اور آزادی کی اقدار کا سب سے روشن زمانہ قرار دیتی ہے جہاں ایک طرف طاقتور قومیں اور ریاستیں اپنے شہریوں کیلئے مساوات اور انصاف کے بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں دوسری طرف بلوچ گھر آج بھی انتظار، خوف اور بےبسی کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان کے گھر کی دہلیز پر ہردستک ماں کے دل کو انہی گھروں میں غنی بلوچ جیسے نوجوانوں کی کہانیاں لکھی جاتی ہیں، 25 مئی کی شب جبری طور پر غائب کردیا۔
اس سر زمین پر قانون طاقتور کے ہاتھ میں محض ایک ہتھیار ہے، فرانس فینن نے اپنی کتاب The Wretched of the Earth میں اس طرح بیان کیا ہیں کہ نوآبادیات کا مقصد صرف زمین پر قبضہ نہیں بلکہ ذہنوں کو غلام بنانا ہوتا ہے۔ مظلوم کو اپنی بے وقعتی اور اپنی بے بسی پر یقین دلادیا جائے، غنی بلوچ کی گمشدگی کو محض ایک واقعہ سمجھا جائے تو یہ ناانصافی ہوگی یہ سب کچھ صرف ایک شخص استعماری قوتیں ہمیشہ اپنی موجودگی کو جواز دینے کےلئے مظلوم کو کمتر اور غیر محفوظ دکھاتی ہیں۔
ارسطو نے کہا تھا کہ انصاف ریاست کی بنیاد ہیں لیکن جب انصاف ہی غائب ہو جائے تو ریاست محض طاقت کا ڈھانچہ رہ جاتی ہیں بہنوں کے خواب اجڑ جاتے ہیں، دوست اپنی سنگت سے محروم ہو جاتے ہیں، یہی وہ تلخ فلسفہ ہے جس پر فینن نے کہا تھا کہ جب قانون ظلم کا ہتھیار بن جائے تو وہ قانون نہیں رہتا بلکہ طاقت کی زبان بن جاتا ہے اور غنی بلوچ کا کیس اسی فلسفے کی زندہ مثال ہے
یہ اکیسویں صدی ہے، مگر بلوچ کے گھروں میں آج بھی نوآبادیات کی صدی کے سائے ہیں۔غنی بلوچ جیسے لوگ خاموشی میں غائب کردیے جاتے ہیں، جب دنیا آزادی اور انصاف کے دعوے کررہی تھی تو اس وقت ایک پبلیشر کیوں غیر محفوظ تھا۔ جو انصاف کا دعویٰ کرتا ہے مگر ظلم پر خاموش رہتا ہے جو اپنے شہریوں کو انصاف کے بجائے اندھیروں میں دھکیل دیتی ہے۔
جو قومیں اپنے فکری اثاثوں کی حفاظت نہیں کرتیں، جو قومیں دانشوروں کی صداؤں پر خاموش رہتی ہیں، غنی ان بے شمار نوجوانوں میں سے ایک ہیں جو قلم اور کتاب کے ذریعے اپنی شناخت ، تاریخی شعور، اور مزاحمتی آگاہی کو پروان چڑھاتے ہیں۔
تاریخ ان اقوام کےلئے کبھی مہربان نہیں رہی جو اپنے لمحوں کو پہچاننے قاصر رہیں۔ جو قومیں اپنے شعور ، دانش ، اور کتاب دوستوں کو تنہا چھوڑ دیتی ہیں، وہ آنے والے وقتوں میں صرف جغرافیائی اکائیوں کے نام پر زندہ رہ جاتی ہیں، یہ سوال ہم سب کے سامنے کھڑا ہے۔ اگر آج ہم نے غنی بلوچ کی بازیابی کےلئے آواز نہ اٹھائی تو کل کوئی اور غائب ہوگا غنی بلوچ ک غائب کیا جانا اس بات کا اعتراف ہے کہ کالونائزر علم سے خوفزدہ ہے۔ غنی بلوچ صرف نام نہیں، فکر و شعور و مکالمہ کا استعارہ ہے۔ اس استعارے کو غائب کیا جاسکتا ہے، ہمیں احتجاج کرنا ہے، ہمیں بولنا ہے غنی بلوچ کو ان کے “علمی جرائم” کی پاداش میں لاپتہ کیاگیا اگر کتابوں سے محبت جرم ہے، تو ہر سقراط، پر منصور، ہرچی گویرا، اور ہر فینن قابل گرفت ٹھہرتے ہیں۔ غنی بلوچ کی گمشدگی محض ایک واقعہ نہیں، ایک تسلسل ہے ، جس میں بلوچ نوجوانوں کو چن چن کر اس لیے غائب کیاجاتا ہے کہ وہ سوال کرتے ہیں، وہ تاریخ پڑھتے ہیں۔
کیا ہم اس چراغ کو بحھجنے دیں گے جو تاریکی میں روشنی دےرہا ہے، اگر ہم خاموش رہے، تو غنی بلوچ کی جگہ کل کوئی اور ہوگا، پھر کوئی اور غنی بلوچ کی بازیابی صرف ایک فرد کی آزادی نہیں بلکہ علم، شعور اور کتابوں کی آزادی ہے بلوچ مزاحمت، دراصل اس نوآبادیاتی جبر کے خلاف ایک وجودی احتجاج ہے صرف غنی بلوچ جیسے باشعور فرد کی جبری گمشدگی کا نہیں یہ ان دیکھے ، جرائم کا بھی ہے جن کا ارتکاب ہم روز اپنی خاموشی سے کرتے ہیں۔
ریاستی جبر گمشدگیوں نے بلوچستان میں خوف کا ایک ایسا نفسیاتی ماحول پیدا کردیاہے، جس میں لوگ نہ صرف اظہار رائے بلکہ جہدوجہد، احتجاج، اور حتیٰ کہ غم کا اظہار کرنے سے بھی خوفزدہ ہیں اس صدمے کی علامات بے حسی، مایوسی بے عملی، اور باہمی اعتماد کے فقدان کی صورت میں ظاہر ہورہی ہیں۔ غنی بلوچ کا غائب کردیا جانا دراصل بلوچ شناخت، تشخص، اور قومی شعور پر براہِ راست حملہ ہے۔ جبری گمشدگی کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ عوام کو یہ پیغام دیا جائے: ؛ تمہاری شناخت، تمہاری زبان، اور تمہارا وجود غیر محفوظ ہے۔ گمشدہ افراد کے بچے، بیویاں اور اگلی نسلیں اس دکھ کو وراثت میں پائی ہیں، غنی بلوچ کی جبری گمشدگی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ غنی بلوچ جیسے نوجوانوں کی بازیابی کے لئے کی جانے والی جہدوجہد چاہے وہ احتجاج ہو، پریس کانفرنس ہو آواز بلند کرنا بہت ضروری اور بازیابی عمل کے حصے ہیں اس جبر کے خلاف مزاحمت کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔