سینٹرل جیل گڈانی کی ڈائری: پکار رہا ہے بلوچستان – چیئرمین عمران بلوچ

104

سینٹرل جیل گڈانی کی ڈائری
پکار رہا ہے بلوچستان

تحریر: چیئرمین عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

نظر بند قیدی
بیرک نمبر 09

تنہا

میرا وطن میرا پیارا وطن، بلوچستان میرا مادرِ وطن، بلوچستان میرے ایمان کا حصہ، مجھے اپنے وطن سے محبت ہے، مجھے اپنے وطن کی سرزمین سے محبت ہے، اپنی سرزمین کی مٹی سے محبت ہے، اس مٹی کی خوشبو سے محبت ہے۔ اس مٹی سے میرے وطن کے بہادر و نڈر سپوتوں کے خون کی خوشبو آتی ہے جو انہوں نے اس کی حفاظت و تحفظ کے لئے بہائی ہے، مجھے اپنے وطن کے ان بلند و بالا پہاڑوں سے محبت ہے جو ہمارے پناہ گاہ اور دشمنوں کے لئے ڈراؤنے ہیں، مجھے اپنے وطن کے دشت و صحراؤں سے محبت ہے جو ایک ماں کی طرح ہمیں اپنی گود میں رکھتی ہیں اور ہمارے دشمنوں کو اپنی گرمی سے جھلسا کر نیست و نابود کرتی ہیں، مجھے اپنے وطن کے کسان سے محبت ہے جو سواس پہنے تپتی دھوپ میں ہل چلا کر زمین کا سینہ چیر کر اناج اُگاتا ہے اور ہمیں خوراک فراہم کرتا ہے، مجھے اپنے وطن کے شُوان سے محبت ہے جو شدید سرد و گرم موسم میں بھیڑ بکریاں چراتے دکھائی دیتا ہے، مجھے اپنے وطن کے کتوں سے محبت ہے جو ہمارے وفادار گھروں کے محافظ اور غیروں کو گھر میں گھسنے نہیں دیتے، مجھے اپنے وطن کے پرندوں سے محبت ہے جو چیختی اپنی آوازوں سے ہماری صبح کو خوبصورت بناتے ہیں، مجھے اپنے وطن کی ہر شے سے محبت ہے جو اس کی پیداوار ہے، یہ ہے میرا مادرِ وطن جس سے مجھے بے پناہ محبت ہے یہ محبت مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا نہ انہیں مجھ سے کوئی چھین سکتا ہے۔

بلوچ کو وقتاً فوقتاً قید کیا گیا، مارا گیا، قتل کیا گیا، دھوکے پہ دھوکہ دیا گیا اور فریب پہ فریب کرتے رہے لیکن کوئی طاقت و قوت، دھوکہ و فریب بلوچوں سے اس کے وطن کو چھین نہیں سکا۔ وطن بلوچ کا رہا اور بلوچ وطن کے رہے۔

بلوچستان اپنے جغرافیائی محلِ وقوع، طویل ساحل، وسیع سرزمین اور اپنی گوناگوں خوبیوں اور خصوصیات کی وجہ سے ماقبلِ تاریخ سے ہی اہمیت کا حامل خطہ رہا ہے۔ زمانہ ماضی میں بلوچ قوم ایک وسیع و عریض خطے میں آباد تھی جس کی سرحدات موجودہ ایران، افغانستان تا حدود سندھ و پنجاب پھیلی ہوئی تھیں۔ لسانی بنیادوں پر اس پورے خطے کا رقبہ بیان کرنا ایک مشکل امر ہے، البتہ سیاسی بنیادوں پر خانِ اعظم میر نصیر خان نوری کے عہد تک بلوچستان کا کل رقبہ تین لاکھ چالیس ہزار (۳,۴۰,۰۰۰) مربع میل پر مشتمل تھا۔ اس پورے جغرافیائی خطے میں ایک ہی قسم کی تہذیب اور ثقافت پائی جاتی تھی جسے عرفِ عام میں بلوچ تہذیب اور ثقافت کہا جاتا ہے۔ یہاں کے باشندے بلوچ ہیں اور یہ خطہ شروع ہی سے ان کا مسکن رہا ہے۔

لیکن برطانوی مداخلت نے بلوچستان میں ایک تاریک دور کا آغاز کیا، اس کا رقبہ سمٹتا گیا۔ برطانیہ کی فوجی اور سول بیوروکریسی نے اپنے ملکی مفادات اور سامراجی عزائم کی تکمیل کی خاطر بلوچوں کی سرزمین کے حصے بخرے کر ڈالے، اور اس کے بڑے حصے ایران، افغانستان، سندھ اور پنجاب میں شامل کیے جبکہ ایک حصہ سرحد (خیبرپختونخوا) میں شامل کیا۔ تقسیم کے وقت جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو بلوچستان کے بعض حصے اس میں شامل کیے گئے۔ اس شامل کردہ علاقہ کا کل رقبہ ایک لاکھ چونتیس ہزار مربع میل تھا جبکہ اس کا دو لاکھ مربع میل سے زیادہ علاقہ منقسم رہا۔ یہ علاقے اب بھی ایران، افغانستان، سندھ، پنجاب اور سرحد (خیبرپختونخوا) کے صوبوں میں شامل ہیں۔ ان علاقوں کی آبادی اب بھی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے۔

تاج برطانیہ نے بلوچستان کے حصے اس طرح غیر ملکوں میں تقسیم کیے جیسے یہ ان کی ذاتی جاگیر ہو اور ساتھ ہی انگریز مؤرخوں نے بلوچ تاریخ پر ایسا زبردست وار کیا اور اس پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ جس سے بلوچ تاریخ کی اصلیت افسانوں اور قیاسیات میں دب کر رہ گئی۔ مختلف مورخین نے بلوچ کو الگ الگ نام دیئے اور الگ الگ وطن کے باشندے قرار دیئے۔ ان میں سے ایک نے بلوچ کو سامی النسل کلدانی خاندان کہ جو عراق کے قدیم حکمران تھے کی باقیات قرار دیا، تو دوسرے نے آلٹک وسط ایشیائی گروہ، ایک نے آریائی تو دوسرے نے انڈین راجپوت، ایک نے سامی النسل عرب، حضرت امیر حمزہ کی اولاد تو دوسرے نے ایرانی خانہ بدوش، ایک نے وسط ایشیائی تاجک تو دوسرے نے ترک نسل، ایک نے حلب و شام کو ان کا اصل وطن قرار دیا۔ اور اکثر بلوچ مورخین و دانشور حضرات بھی ان غیر تحقیقی، غلط و من گھڑت مفروضات کے حامی نکلے۔ ان علمِ تاریخ سے نابلد دانشوروں نے بلوچ قوم کو کبھی عظیم حکمرانوں کی اولاد قرار دیا اور کبھی معزز ترین حملہ آور خاندان سے ملایا۔ انہیں کبھی ماضی میں عراق کا مالک بنایا تو کبھی وسط ایشیا کا وارث کہا۔ انہوں نے بلوچ قوم کو کئی طرح کی خوش فہمیوں میں مبتلا رکھ کر انہیں ان کی اصلی تاریخ سے بیگانہ کر دیا۔ بلوچ دانشور بلوچوں کو انہی خوش فہمیوں میں مبتلا رکھ کر خود بھی خوش ہوتا رہا اور سادہ لوح بلوچوں کو بھی اعلیٰ ترین خاندان کی باقیات قرار دے کر خوش کرتا رہا۔ لیکن یہ مورخین و دانشور یہ نہ سمجھ سکے کہ وہ بہر حال انہیں اس خطے میں مہاجر قرار دے رہے ہیں۔

بلا ہو ڈاکٹر فاروق بلوچ صاحب کا کہ جس نے بلوچ تاریخ پر کافی تحقیق کر کے اپنی تحریروں سے یہ ثابت کر دیا کہ بلوچ نہ صرف ایک جداگانہ ثقافتی و قومی گروہ ہے جو کسی دیگر نسلی گروہ کے ساتھ نتھی نہیں، بلکہ اس خطے کے قدیم باشندے ہیں۔ تاریخِ ماضی میں ان کی یہاں منظم و طویل حکومتیں رہی ہیں۔ ڈاکٹر فاروق بلوچ صاحب کی تصانیف: ’قدیم بلوچ قبائل اور بلوچستان کی قدیم تاریخ‘، ’بلوچ اور ان کا وطن‘، ’بلوچ سماج‘، ’بلوچستان قدیم مورخین کی نظر میں‘، ’بلوچ۔ آریائی تعلقات تاریخی حقائق کی روشنی میں‘، بلوچ تاریخ کے حوالے سے اہم تصانیف ہیں۔ جن میں مختلف قدیم تاریخی تصانیف و تحریروں کا حوالہ دے کر بلوچ کو بلوچستان کی قدیم اور اولین آباد قوم ثابت کیا ہے۔

بلوچ قوم کے بچے بچے پر فرض بنتا ہے کہ اسے اپنے روشن تاریخ اور قدیم وطن کے جغرافیائی حدود کے بارے میں مکمل علم ہو۔ تاریخ سے بیگانگی کے عمل سے کسی بھی قوم کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ طاقتوروں کا ایک ہتھیار یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ مظلوم و محکوم اقوام کو ان کی اصل تاریخ اور ماضی کے کارناموں سے بیگانہ کر دے تاکہ نہ انہیں اپنا روشن ماضی یاد رہے اور نہ اس سے مستقبل میں کسی بڑے کام اور بغاوت کی امید ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم اور طاقتور حملہ آور قوتوں نے ہمیشہ بلوچ تاریخ پر حملہ کیا اور بلوچوں کو ان کی حقیقی اور روشن ماضی سے نا آشنا رکھا تاکہ اس دلیر اور جنگجو قوم کو اپنا وفادار اور محکوم بنا کر رکھ سکیں اور انہیں ان کے ماضی سے مکمل طور پر بیگانہ کر دیا جائے۔ اس عمل سے ان کا خیال تھا کہ بلوچ قوم کی مزاحمتی روح فنا ہو جائے گی اور وہ ظالم و حاکم کی محکومیت میں رہنا عار نہیں سمجھیں گے بلکہ ہمیشہ حکومت وقت کے تابعدار اور وفادار بن کر رہیں گے۔

بلوچستان وہ خطہ ہے جہاں مزاحمت ہمیشہ کسی نہ کسی شکل و صورت میں زندہ رہی ہے۔ قبضہ گیروں نے یہاں کبھی بھی ٹک کر حکومت نہیں کی۔ انہیں ہمیشہ یہاں کے بلوچوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں سائرسِ اعظم نہ سکندرِ اعظم کے حملے کامیاب رہے۔ نہ سلطان محمود غزنوی اور نہ احمد شاہ ابدالی کو کامیابی حاصل ہوئی۔ محمد بن قاسم اور نہ عرب حکمران یہاں کے پہاڑوں اور صحراؤں کو زیرِ تسلط لا سکے۔ آلِ بویہ اور نہ ارغون حکمران، نہ منگول یہاں ٹک سکے اور نہ انگریز مکمل طور پر بلوچستان میں قابض ہو سکے اور نہ بھٹو فاتحِ بلوچستان بننے کا اپنا خواب پورا کر سکا۔ بڑے بڑے بادشاہ، سلطان، شہنشاہوں کے لشکر یہاں آئے اور چلے گئے لیکن بلوچ یہاں تھے، ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بلوچستان بلوچوں کا مادرِ وطن ہے، جہاں طاقتور کا زور نہیں چلا۔ جب طاقت و قوت سے بلوچوں کا مقابلہ نہیں کر سکے تو دھوکہ و فریب کا سہارا لیا گیا۔ بلوچوں کے ساتھ دھوکہ و فریب کی داستان طویل اور دردناک ہے۔

دسویں صدی میں کرمان، سیستان اور مکران پر بلوچوں کی حکمرانی تھی۔ آل بویہ حکمران جو بغداد میں قابض ہوچکے تھے طاقت ہاتھ میں لینے کے بعد بلوچوں کے خلاف حملے شروع کیے۔ احمد بن بویہ کرمان کے دارالسلطنت جیرفت میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ معاہدے کے مطابق خراج کی رقم جو خلیفہ بغداد کی وجہ سے کرمان کو ادا کرنی تھی احمد بن بویہ نے خراج کی رقم وصول کرنے کے بعد بھی عہد شکنی کی اور بلوچوں پر حملہ آور ہوا۔ اس جنگ میں انہیں شکست ہوئی۔ اس کے بہت سے آدمی مارے گئے اور بہت سے گرفتار کر لیے گئے صرف چند حملہ آور اپنی جان بچا کر بھاگ نکلے۔ لاشوں کے ڈھیر سے احمد بن بویہ زخمی ملا جس کا بایاں ہاتھ کٹ چکا تھا اور دائیں ہاتھ کی چار انگلیاں کٹ چکی تھیں۔ بلوچوں کے امیر نے اسے لاشوں کے ڈھیر سے نکال کر اس کا علاج کیا۔ صحت یاب ہونے کے بعد عزت و احترام کے ساتھ روانہ کیا لیکن اس پر شکر گزار ہونے کے بجائے بویہی حکمران نے پھر بلوچوں کے خلاف لشکر کشی کی لیکن یہ حملہ بھی ناکامی اور بے عزتی پر منتج ہوا۔

اس کے بعد بویہی حکمران کرمان کو ان سے صاف کرنے کے لئے اس کے اندرونی علاقہ تک جا پہنچا اسے معلوم ہوا کہ بلوچوں میں سے کچھ لوگ ایک پہاڑ (جبل القفص) کے پیچھے چلے گئے ہیں۔ ان تک پہنچنے کا صرف ایک راستہ تھا جو ایک ایسے درے سے گزرتا تھا جہاں ایک چھوٹی سی جماعت ایک بڑی فوج کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ بویہی حکمران نے ایک چال سوچی۔ اس نے ان کے پاس ایک قاصد اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ وہ خراج کی رقم وصول کیے بغیر نہیں جائے گا۔ انہوں نے جواب دیا ہمارے پاس دینے کے لئے کوئی رقم نہیں ہے۔ اس پر اس نے کہا تم شکاری ہو اور میں ایک کُتا فی خیمہ کے حساب سے حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ بلوچوں نے اس مطالبے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ قاصد نے خیمے گن کر اتنے ہی کُتے وصول کیے۔ کتے کا خاصہ ہوتا ہے وہ اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے وہ میلوں دور سے ہی اپنے مالک کے ہاں پہنچ جاتا ہے۔ کتے حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کتوں کے گلے میں سفید آتش گیر مادہ باندھا انہیں درے کے پاس لا کر آتش گیر مادے کو آگ لگا دی اور فوج ان کے پیچھے چلنے لگی۔ بلوچ سمجھے دشمن کی فوج ان پر حملہ کرنے آ رہی ہے۔ وہ آگے بڑھے۔ کتوں نے جونہی انہیں دیکھا وہ آگ سے بچنے کی خاطر اپنے اپنے مالک سے آ کر چمٹ گئے اور اس طرح ان کے کپڑوں کو بھی آگ لگ گئی۔ وہ آگ سے بچنے کے لئے بھاگے۔ کتے بھی بھاگ کر خیموں میں گئے وہاں بھی آگ لگ گئی اور فوج ان کے پیچھے تھی۔ اس طرح سارے بلوچ دھوکے سے وہاں مارے گئے۔

اسی طرح کی ایک چال سلطان محمود غزنوی نے چلی تھی جس کا ذکر مختلف تاریخی کتب میں بھی ہوا ہے۔ طیس اور حیض کے درمیان اور کرمان کی حدود سے تاجروں کے جو قافلے گزرتے تھے بلوچ ان سے چنگی (ایک قسم کا ٹیکس) وصول کرتے تھے کیونکہ یہ بلوچوں کے علاقے تھے۔ ایک دفعہ سلطان محمود غزنوی نے ایک چال سوچی۔ انہوں نے اپنے بھتیجے میر اسماعیل کو زہر سے بھری ہوئی بوتلیں دے کر کہا چونکہ بلوچوں کے خلاف ہم جنگ جیت نہیں سکتے لہذا ان کی سرکوبی کے لئے تدبیر سے کام لینا ہوگا۔ آپ تاجروں کے قافلوں کو لیکر بلوچوں کے علاقوں کی طرف نکلو اور بے شمار اونٹوں پر سیب لاد دینا اور اپنے خاص و رازدار خادموں کے ذریعے زہر آلود سوئیوں کے ذریعے سیبوں کو زہر آلود بنا دینا۔ بلوچ جب قافلوں کو دیکھ کر ان کی جانب بڑھے تو آپ لوگ پیچھے ہٹ جانا۔ لہذا میر اسماعیل نے یہی ترکیب اختیار کی۔ بلوچوں نے جب تاجروں کے قافلے کو دیکھا تو ان کی جانب بڑھے اور یہ لوگ پیچھے ہٹ گئے۔ قافلہ لوٹ کر بلوچوں نے سیب استعمال کیے اس طرح سب وہیں مر گئے۔

ایک اور چال سیوی (سبی) کے قریب ارغون حکمران شاہ بیگ نے بلوچوں کے خلاف چلی۔ میر چاکر و میر گوہرام کے درمیان ہولناک خانہ جنگی جو تیس سال تک جاری رہی۔ اس خانہ جنگی کی وجہ سے نہ صرف بلوچوں کی قوت ختم ہو کر رہ گئی بلکہ ان کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی۔ اس ہولناک اور طویل خانہ جنگی کے اختتام کے بعد وہ اتنے کمزور ہوگئے کہ اپنی حاکمانہ حیثیت کے ساتھ بلوچستان میں نہیں رہ سکے گویا شمال مشرق کی جانب نکل مکانی کا سلسلہ زوروں پر جاری رہا۔ چاکر اور گوہرام نے بلوچستان کو چھوڑ دیا لیکن ہزاروں بلوچوں نے چاکر و گوہرام کے ساتھ اپنا وطن چھوڑ کر چلے جانے کے بجائے سیوی اور کچھی میں رہنے کو ترجیح دی۔ جس طرح مکران سے نقل مکانی کے وقت ہزاروں بلوچوں نے بدستور مکران میں سکونت کو ترجیح دی تھی۔ اسی دوران کامران مرزا کے دباؤ کے تحت ارغونوں کو ہرات و قندھار سے نکل کر جنوب میں بلوچوں کے علاقوں کی طرف رخ کرنا پڑا۔

چاکر کی جانب سے نقل مکانی کے فیصلے کے تحت بلوچوں کی ایک بہت بڑی تعداد پنجاب اور سندھ کی جانب منتقل ہوئی۔ لیکن پیچھے رہ جانے والے بھی ارغونوں کے خدمت گزار نہیں بنے۔ ان میں اب بھی اتنی قوت تھی کہ ارغون حکمران انہیں اپنے لئے باعث خطرہ خیال کرتے تھے۔ ارغون حکمران شاہ بیگ نے بلوچوں کے خطرے کو قلع قمع کرنے اور ان کی طاقت کو ختم کرنے کے لئے امراء کا ایک خصوصی اجلاس طلب کیا۔ اس نے باہمی مشورے سے طے کیا کہ ہر موضوع میں تجربہ کار لوگوں کی جمعیت بھیجی جانی چاہیے جو کچھ مدت تک ان مواضعات میں رہے اور پھر ہر ایک موضع میں بیک وقت ہر جگہ ان کو ختم کر دے۔ چنانچہ ہر ایک مقام پر مقررہ جمعیت بھیجی گئی اور ایک مقررہ وقت پر ہر موضع پر انہوں نے نہایت بے دردی سے بلوچوں کو قتل کیا۔

تاریخی کتب میں ملتا ہے کہ ان کے ہاتھوں بیالیس مواضعات کے بلوچ قتل و برباد ہوئے۔ آل بویہ اور سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں مکروفریب کے ذریعے بلوچوں کے قتل و غارت گری کے بعد ارغون حکمران کے ہاتھوں یہ واقعہ گویا انہی دھوکے دہیوں کا ایک تسلسل تھا۔ بعد میں اس روایت و تسلسل کو پاکستان کے قیام میں آنے کے ساتھ ہی اس کے حکمرانوں نے اپنایا۔

1948 کو جبری الحاق کے ساتھ ہی بلوچوں کے مرکز قلات پر فوج کشی کر کے معصوم و بے گناہ بلوچوں کا قتل عام کیا گیا۔ اس عمل کے خلاف خان قلات کے بھائی پرنس آغا عبدالکریم نے ساتھیوں کے ساتھ بغاوت کا جھنڈا بلند کر کے افغانستان چلے گئے، وہیں سے مسلح مزاحمت شروع کی۔ بعد میں ایک معاہدے اور عام معافی کے بعد جب وہ بلوچستان میں داخل ہوا تو معاہدے کی خلاف ورزی کرکے انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ اس طرح پاکستانی حکمرانوں نے اپنے پہلے معاہدے کی دھجیاں بکھیر کر ہوا میں اڑا دیں۔

دوسرا معاہدہ ایوبی دور میں نواب نوروز خان زرکزئی کے ساتھ قرآن پاک پر ہوا، جہاں پاکستانی حکمرانوں نے قرآن مجید کی عظمت کا بھی خیال نہیں رکھا اور معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں۔ 1958ء کو ایوبی مارشل لاء، خان قلات کی گرفتاری کے ساتھ ہی جھالاوان کے نواب نوروز خان زرکزئی کی قیادت میں مسلح مزاحمت کی تحریک شروع ہوئی، جس کو کچلنے کی خاطر طاقت استعمال کی گئی۔ جب طاقت سے مزاحمت ختم نہ ہو سکی تو قرآن مجید کا واسطہ دے کر انہیں پہاڑوں سے اتارا گیا۔ ایک بار پھر وہی کہانی دہرائی گئی جو 1948ء میں پرنس آغا عبدالکریم کے ساتھ کی گئی تھی۔ فوجی حکمرانوں نے قرآن مجید پر حلف کے ساتھ ان کی تحفّظ و سلامتی کی ضمانت کا یقین دلایا اور ایک مرتبہ پھر اس معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں۔ پیرمرد نوروز خان کو گرفتار کر لیا گیا اور اس کے فرزند کو دیگر ساتھیوں کے ساتھ غداری کے الزامات کے تحت جولائی 1960 میں پھانسی دے دی گئی۔

یہ تسلسل جاری رہا۔ ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں سندھ کی ایک بیٹی ڈاکٹر کے ساتھ ایک فوجی کرنل کی زیادتی کے خلاف نواب محمد اکبر خان بگٹی نے آواز بلند کی تو جنرل مشرف نے ڈیرہ بگٹی میں بمباری کی۔ نواب محمد اکبر خان بگٹی نے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا اور مسلح تحریک شروع کی۔ اس دوران فوجی حکمرانوں نے ڈیرہ بگٹی سمیت پورے بلوچستان میں فوج کشی کی، لوگوں کے گھر جلائے گئے، معصوم و بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا گیا لیکن مسلح مزاحمتی تحریک کو ختم نہیں کر سکے۔ پھر پاکستانی حکام کی جانب سے ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی گئی اور اسے نواب صاحب کے پاس بھیجا گیا۔ مذاکرات ناکام ہوئے تو پھر دھوکہ و فریب کا سہارا لیکر اس مذاکراتی کمیٹی کی آڑ میں تراتانی کی پہاڑی غار میں، جہاں نواب صاحب موجود تھے، کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کر کے اس پیرمرد سفید ریش نواب محمد اکبر خان بگٹی کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔ پھر جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے نواب صاحب کی میت کو اہلِ خانہ کے حوالے کرنے کے بجائے اسے تابوت میں ڈال کر تالا لگا دیا گیا تاکہ اس کی میت کو کوئی دیکھ نہ سکے اور کسی کو معلوم نہ ہو ان کی موت کس طرح واقع ہوئی ہے۔ چند لوگوں کی موجودگی میں ان کی نمازِ جنازہ ادا کر کے سپردِ خاک کیا گیا۔ فوجی حکمرانوں کے اس غیر انسانی عمل سے بلوچوں کے دلوں میں پاکستانی حکمرانوں کے لیے مزید نفرت و غصہ پیدا ہو گیا اور پھر ایک ایسی مسلح مزاحمتی تحریک نے جنم لیا جو آج تک بڑی تیزی سے جاری ہے۔

زمانہ قدیم سے لے کر آج تک بلوچوں کو دھوکہ و فریب سے شکست دینے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ پاکستان کے حکمران اشرافیہ بھی اس دھوکہ و فریب کا سہارا لے کر اس تسلسل کو بڑی دیدہ دلیری سے دہرا رہے ہیں۔ انہیں اب تک نہیں معلوم کہ اس کے انتہائی خطرناک نتائج نکلیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بلوچ پاکستانی حکمرانوں کے کسی بھی معاہدے و مذاکرات پر یقین نہیں رکھتے۔

1948 کے جبری الحاق سے لے کر آج تک پاکستانی حکمرانوں نے بلوچ کو بحیثیت ایک قوم اور بحیثیت پاکستانی شہری کے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے بلوچستان میں اپنی آمد کی شروعات ہی بندوق اور توپوں کے استعمال اور بلوچوں کے قتل عام سے کی۔ انہوں نے ان قدیم بلوچوں کو بلوچستان کا حقیقی وارث و مالک سمجھنے کے بجائے ہمیشہ اپنی غلامی اور تیسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ بلوچ قوم پرست سیاسی رہنماؤں نے بار بار ان حکمرانوں کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے اور کرتے آرہے ہیں کہ ہم پاکستان کے شہری ہیں، ہمیں پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق حق دیا جائے، ہمارے حقوق کا تحفظ کیا جائے، ہمیں ہماری سرزمین پر اختیار و اقتدار دیا جائے، ہمیں اپنی سرزمین پر حقِ حاکمیت دیا جائے، لیکن مجال ہے کہ حکمران ان مطالبات کو مان لیں۔ ملکی آئین کو تو انہوں نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔ ان حکمرانوں کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ انہیں تو ویسے بھی بلوچ نہیں بلکہ بلوچوں کے وسائل چاہئیں۔

ہمارے قوم پرست سیاسی رہنما ریاستی الیکشن میں حصہ لیکر پارلیمنٹ میں گئے، حکومت سازی و قانون سازی میں حصہ لیا، لیکن پھر بھی بلوچستان کے حق میں کچھ نہیں آیا۔ اگر آیا تو فوجی آپریشن جو وقتاً فوقتاً ہوتا آرہا ہے۔ آج بھی بلوچوں کے گھروں پر بمباری ہو رہی ہے، معصوم و بے گناہ لوگوں کا ناحق خون بہایا جا رہا ہے، بلوچ عورتوں کی عزت پر حملہ ہو رہا ہے، ان کی چادریں و دوپٹے کھینچے جا رہے ہیں، انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ہزاروں بلوچ جن میں نوجوانوں، طالب علموں کی بڑی تعداد شامل ہے، ماورائے عدالت اغوا کرکے لاپتہ کیے گئے ہیں۔ ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا جب کسی ماں کا لخت جگر سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ نہ ہو اور پھر انہی لاپتہ افراد کو جو ان کی قید میں ہیں، ایک ایک کرکے مارا جا رہا ہے اور پھر کہا جاتا ہے یہ مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے ہیں۔

اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان تمام تر ظلم، زیادتیوں اور ناانصافیوں کے باوجود ہمارے قوم پرست جماعتیں پارلیمانی سیاست کو اولین درجہ دے کر پارلیمنٹ میں ہی بلوچ کے مسئلے کا حل ڈھونڈ رہی ہیں۔ بلوچ مارے جا رہے ہیں، لاپتہ کیے جا رہے ہیں، بلوچ وسائل کو بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے، بلوچ عورتوں کی عزت کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ ان پارلیمانی حضرات کے منہ سے دو چار مذمتی الفاظ بھی نہیں نکلتے کہ کہیں ہماری کرسی چلی نہ جائے۔ ان کے لبوں پر تالے لگا دیے گئے ہیں۔ اگر کبھی کوئی اسمبلی ممبر بلوچ مسئلے پر دو چار الفاظ کہہ بھی ڈالے تو ان کے الفاظ پارلیمنٹ سے حذف کیے جاتے ہیں۔ تو ایسی پارلیمانی سیاست اور کرسی کا کیا فائدہ جہاں بلوچ مسئلے اور حقوق پر لب کشائی کی اجازت بھی نہیں ہے۔ وہ پارلیمنٹ جہاں الیکشن سے نہیں، “سلیکشن” سے لوگ آتے ہیں، جو ایک بکاؤ منڈی بن چکی ہے۔ صاحبِ اقتدار کو جو زیادہ مال دے گا وہ الیکشن جیت جائے گا۔ جو ان کا زیادہ وفادار ہوگا اور ان کے ہر جائز و ناجائز کام کرتا رہے گا وہ وزارت کی کرسی پر بیٹھے گا۔ موجودہ بلوچستان اسمبلی اپنی مثال آپ ہے جہاں اکثریت زرداروں، سرداروں، اسمگلروں، لیٹروں، چوروں اور ڈاکوؤں کی ہے۔ ان کا اپنے حلقۂ انتخاب سے کوئی واسطہ و تعلق نہیں رہا ہے، اکثریت لوگ ان کے چہروں سے بھی واقف نہیں ہیں اور یہ جناب اسمبلی میں ان بے چارے عوام کے نمائندے بن کے بیٹھے ہیں۔ یہی حال بلوچستان کے قومی اسمبلی کے ممبران کا ہے۔ تو پھر ایسی پارلیمنٹ میں بلوچ مسئلے کا حل ڈھونڈنا اور اس سے حق حاصل کرنا ایک احمقانہ سوچ کے سوا کچھ نہیں۔ اور ہاں، شاید ان کے اپنے ذاتی مسئلے وہاں حل ہو جائیں تو پھر اور بات ہے۔

بلوچستان جل رہا ہے۔ “اٹھاؤ اور مارو” کی پالیسی دن بدن زور پکڑ رہی ہے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کے احتجاجوں پر آئے روز فائرنگ و شیلنگ ہو رہی ہے، احتجاج کرنے والوں پر آئے روز تشدد ہو رہا ہے، یہاں تک کہ قتل بھی کیا جا رہا ہے۔ ان پارلیمانی قوم پرست جماعتوں کو یہ سب کیوں نہیں دکھائی دیتا؟ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ان کی اپنی بہنیں، بیٹیاں روڈوں پر گھسیٹی جا رہی ہیں؟ اور یہ جناب اب بھی پارلیمنٹ کی کرسی سے چمٹے بیٹھے ہیں۔ ایسی پارلیمنٹ جو ہمارے لیے موت کا سامان فراہم کر رہی ہے، جو بلوچ کی نسل کشی کو قانونی شکل دے رہی ہے۔ ایسی پارلیمنٹ کو آگ لگا دو۔ اس کی کرسی کو توڑ دو۔ ایسے پارلیمانی ممبران کو سولی پر چڑھا دو جو بلوچ کی نسل کشی میں شامل ہیں۔ آج کا باشعور نوجوان اس پارلیمنٹ کے نام سے بھی نفرت کرتا ہے۔

آج بلوچ ایک گمبھیر صورتحال سے دوچار ہیں۔ حکمرانوں نے بلوچستان میں ہر چیز و عمل پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ یہاں پڑھنے لکھنے پر پابندی، تعلیمی درس گاہوں پر پابندی، تعمیر و ترقی پر پابندی، روزگار پر پابندی، سچ اور حق لکھنے اور کہنے پر پابندی، سیاست و صحافت پر پابندی، حقوق کی جدوجہد پر پابندی، ظلم و ناانصافیوں کے خلاف احتجاج پر پابندی، یہاں تک کہ ایک شہر سے دوسرے شہر میں سفر پر بھی پابندی۔ پابندی پہ پابندی، یہ ہے بلوچوں کا بلوچستان۔

اگر کوئی ان پابندیوں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو وہ حکمرانوں کی نظر میں ملک دشمن اور غدار ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ غدار ہے، جس کے والد غفار بلوچ کو اس کی بچپن میں اغوا کرکے پھر بے دردی سے شہید کر کے اس کی مسخ شدہ لاش پھینک دی گئی۔ اور وہ ڈاکٹر ماہ رنگ نہیں چاہتی کہ کوئی اور بلوچ بیٹی سے اس کے والد کا سایہ چھین لیا جائے۔ اسی لئے وہ ماورائے عدالت اغوا نما گرفتاریوں اور ماورائے عدالت قتل عام کے خلاف احتجاج کرتی ہے، اسی لئے وہ غدار ہے۔ سمی دین غدار ہے جس کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو اس کی بچپن میں اٹھا کر اس کو والد کی شفقت و محبت سے محروم کردیا گیا۔ سمی دین کا بچپن روڈوں پر احتجاج کرتے ہوئے گزرا ہے۔ وہ سولہ سال سے اپنی والدہ اور چھوٹی بہن مہلب دین کے ساتھ اپنے والد کی بازیابی کے لئے آواز اٹھا رہی ہے، اسی لئے وہ غدار ہے۔ سیما بلوچ غدار ہے جس کے چھوٹے اور معصوم بھائی شبیر بلوچ کو اٹھا کر لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ وہ اپنی معصوم سی چھوٹی بچی کے ساتھ گزشتہ کئی سالوں سے اپنے لاپتہ بھائی کی بازیابی کے لئے احتجاج کرتی آرہی ہے، اسی لئے وہ غدار ہے۔ ماہ زیب غدار ہے جس کے چچا راشد حسین کو دبئی سے پاکستان ڈی پورٹ کرکے لاپتہ کر دیا گیا، جس کی خبر بھی پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل نے نشر کی تھی۔ ماہ زیب اس چھوٹی عمر میں آئے روز اپنی بوڑھی دادی کے ساتھ اپنے چچا کی بازیابی کے لئے احتجاج کرتی ہے، اسی لئے وہ غدار ہے۔ فوزیہ بلوچ و گلزاری بلوچ بھی غدار ہیں کیونکہ وہ ماورائے عدالت اغوا نما گرفتاریوں و قتل اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے خلاف احتجاج کرتی ہیں۔ اس لیے وہ غدار ہیں۔

یہ سب بلوچ بیٹیاں، بہنیں غدار ہیں کیونکہ یہ زیادہ بولتی ہیں اور جب بھی بولتی ہیں سچ بولتی ہیں۔ یہ خلاف قانون اقدام بولتی ہیں، بلوچوں کے حقوق پر بولتی ہیں، ظلم و زیادتیوں کے خلاف بولتی ہیں، اپنے پیارے مانگتی ہیں جنہیں تمہاری سیکیورٹی فورسز نے ماورائے عدالت اٹھا کر اغوا کیا ہے، اس لیے سب غدار ہیں۔ کیونکہ یہاں کے حکمرانوں کو یہ زیادہ بولنا پسند نہیں، وہ بھی حق اور سچ بولنا تو بالکل پسند نہیں۔ وہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جنہیں انسانی حقوق کی جدوجہد پر بین الاقوامی سطح پر “امن” کے نوبل انعام کے لئے نامزد کیا جاتا ہے اور وہی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ یہاں کے حکمرانوں کی نظر میں غدار ہے۔

ظلم، جبر و استبداد کے خلاف جس مزاحمت کو حکمران غداری کہتے ہیں، تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھیں تو یہ “غداری” تو بلوچوں کو وراثت میں ملی ہے۔ بلوچ کی نس نس میں اور اس کی رگ رگ میں مزاحمت بھری ہوئی ہے۔ اس مزاحمت کو قتل عام، فوج کشی، اغوا نما گرفتاریوں اور قید و بند سے ختم کرنے کا آپ کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوگا کیونکہ یہ مزاحمت بلوچ کی روح میں ہے، اسے فنا نہیں کیا جا سکتا۔ آپ سے پہلے والے بھی بہت طاقتور تھے، ان کے پاس فوج بھی زیادہ تھی، لیکن وہ بھی کامیاب نہ ہوئے اور خود فنا ہوگئے، مگر بلوچ آج بھی اپنی سرزمین میں زندہ و جاوداں ہے اور ہر ظالم و جابر کے خلاف مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے۔ بلوچ تاریخ سے نابلد حکمران مارشل لاء پر مارشل لاء، فوجی آپریشن پر فوجی آپریشن، قتل پر قتل عام کرتے آئے ہیں، کیا بلوچ سے مزاحمت فنا کرسکے؟

بلوچستان وہ خطہ ہے جو قدرتی دولت سے مالا مال ہے۔ اگر اس دولت کو بلوچستان کی تعمیر و ترقی پر خرچ کیا جاتا تو یہ ترقی یافتہ مغربی ممالک سے کئی گنا زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال خطہ ہوتا اور ان ممالک کے لوگ روزگار کے حصول کے لئے بلوچستان کا رخ کرتے۔ شومئی قسمت کہ اسی امیر خطے کے مالک بلوچ نان شبینہ کے محتاج ہیں، دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ سونا اگلنے والی اس سرزمین کے باسیوں کے بچوں کے پاؤں میں جوتے نہیں، بدن پر کپڑے نہیں، اچھے اور پروفیشنل تعلیمی ادارے نہیں، اچھا ہسپتال نہیں۔ اس خطے کے باسی تمام تر بنیادی ضروریات اور سہولیات سے محروم ہیں۔ لیکن اگر اپنے حقوق کے لئے بلوچ بات کریں تو اسے غدار کہہ کر اٹھا لیا جاتا ہے یا قتل کر دیا جاتا ہے۔

آج جہاں ایک جانب بلوچ کو فوجی اور سول بیوروکریسی کی جانب سے ظلم و جبر کا نشانہ بنا کر استحصال کیا جا رہا ہے، وہیں دوسری جانب بلوچ کو بین الاقوامی چیلنجز و خطرات کا بھی سامنا ہے۔ لیکن بلوچ پھر بھی مختلف طبقات میں تقسیم اپنی وحدت و قوت کو پارہ پارہ کیے ہوئے ہیں۔ وقت و حالات کا تقاضا یہی ہے کہ ہمیں طبقات و پارٹیوں میں منقسم ہونے کے بجائے اتحاد و یکجہتی کی فضا قائم کر کے ایک ایسی مضبوط و منظم سنگل قومی پارٹی کی تشکیل میں اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے جو بلوچ قوم کو زنجیر کی کڑیوں کی طرح متحد رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ بے شک کہ اس میں مشکلات ہیں لیکن اس قومی کاز پر نظریاتی و فکری سیاسی کارکنوں و رہنماؤں کو سنجیدگی سے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

اتحاد، یکجہتی اور یگانگت ہی بلوچ کی نجات کا واحد ذریعہ ہے۔ کوئی بیرونی یا آسمانی قوت آکر ہمیں ان ظلم، جبر و ناانصافیوں سے نجات نہیں دلائے گی۔ بلوچ کی نجات اسی میں ہی پوشیدہ ہے، بس اسے ظاہر کرنے کی دیر ہے۔ مدتوں بعد ایک بہادر و نڈر بلوچ بیٹی نے ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی شکل میں جنم لیا ہے، جس نے بلوچ کو بحیثیت ایک قوم یکجا و متحد کرنے کی جدوجہد کا آغاز کیا ہے، جس میں کافی پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ لیکن اس قومی جدوجہد کی پاداش میں حکمرانوں نے ان پر جھوٹے و من گھڑت مقدمات درج کرکے انہیں ان کے ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کر کے پابند سلاسل کر دیا ہے جو گزشتہ چھ ماہ سے قید میں ہیں۔

افسوس اس امر کا ہے کہ جس بہادر بیٹی اور بہن نے ان ظالم و سفاک قاتل حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انتہائی دلیری و ہمت سے ان کے ظلم و زیادتیوں کو بیان کیا اور بلوچ قومی حقوق کی دلیرانہ جدوجہد کی اور بلوچ کو یکجہتی کا درس دیتی رہی، اس کے جیل جانے کے بعد بلوچ میں کافی سناٹا چھا گیا ہے۔ کسی کے جیل جانے سے تحریکیں ختم نہیں ہوتیں۔ تحریکیں خاموشی اور کچھ نہ کرنے سے ختم ہوتی ہیں۔ بلوچ کو اٹھنا ہوگا اپنی اس بیٹی اور بہن کے لیے اٹھنا ہوگا جو بلوچ کی میعار و عزت ہے، جو اس وقت ظالموں کی قید میں ہے۔ بلوچ کو اپنے مادرِ وطن کے لیے اٹھنا ہوگا جس کی مٹی نے ہمیں جنم دیا ہے۔ بلوچ کو ان ظالم و جابر حکمرانوں کے ہر ظلم و زیادتی کے خلاف اٹھنا ہوگا جو بلوچوں کی زمین کی مٹی پلید کر رہے ہیں۔ بلوچ کو اتحاد، یکجہتی اور یگانگت کے ساتھ اٹھنا ہوگا۔ تب جا کر مظلوم و محکوم اس قوم کی جیت اور ظالم و جابر حکمرانوں کی موت ہوگی۔ بلوچ کو اٹھنا ہوگا، کیونکہ پکار رہا ہے بلوچستان؛ اتحاد، یکجہتی و یگانگت بلوچ کی نجات ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔