کراچی اور اسلام آباد میں جبری گمشدگیوں کے خلاف دھرنے جاری

35

بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین مختلف شہروں میں اپنے جبری طور پر لاپتہ پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔

تفصیلات کے مطابق کراچی پریس کلب کے باہر جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ اپنے 29ویں روز میں داخل ہو چکا ہے، شدید گرمی اور مسلسل مشکلات کے باوجود لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ، جن میں خواتین، بزرگ اور بچے شامل ہیں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔

اس موقع پر لاپتہ بلوچ طالب علم زاہد بلوچ کے والد حمید بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماڑی پور میں گزشتہ دنوں ہم نے اپنا احتجاجی دھرنا صرف اس یقین دہانی پر ختم کیا تھا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ماڑی پور پولیس اسٹیشن میں اعلیٰ سرکاری حکام سے ملاقات بھی کروائی گئی، تاہم ان تمام یقین دہانیوں کے باوجود کوئی نوجوان رہا نہیں کیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ طرزِ عمل ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

حمید بلوچ نے کہا کہ ان کا بیٹا زاہد بلوچ نے حال ہی میں جامعہ کراچی کے ڈیپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز سے گریجویشن مکمل کی تھی، روزگار کے محدود مواقع کے باوجود اُس نے حوصلہ نہیں ہارا اور گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹانے کے لیے رکشہ چلانا شروع کیا وہ دن رات محنت کرتا تاکہ اپنی تعلیم کا ثمر اپنے خاندان کو دے سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ خود جگر کے عارضے میں مبتلا ہیں جبکہ مالی حالات بھی نہایت کمزور ہیں ایسے حالات میں بیٹے کی گمشدگی نے پورے خاندان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

خیال رہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں سے متعدد بلوچ نوجوان جبری گمشدگی کا شکار بنے ہیں، ان میں ماڑی پور اور لال بکھر ہاکس بے کے شیراز بلوچ، سیلان بلوچ، سرفراز بلوچ، رمیز بلوچ، رحیم بخش بلوچ اور رحمان بلوچ شامل ہیں۔ 

اسی طرح ملیر سے میر بالاچ بلوچ اور صادق مراد بلوچ بھی کئی ماہ سے لاپتہ ہیں ان کے اہلِ خانہ کراچی پریس کلب کے سامنے جاری دھرنے میں شریک ہیں۔

دوسری جانب، اسلام آباد میں بھی جبری گمشدگیوں کے خلاف دھرنا جاری ہے، جہاں بلوچستان سے لاپتہ افراد کے لواحقین اور سیاسی مقدمات میں قید بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قائدین کے اہلِ خانہ گزشتہ 49 دنوں سے احتجاج پر بیٹھے ہیں۔ 

اس موق عہد بلوچستان سے مزید متاثرہ خاندان بھی اسلام آباد پہنچ کر دھرنے میں شریک ہورہے ہیں۔

لواحقین کا شکوہ ہے کہ دو ماہ مکمل ہونے کو ہیں مگر اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس کا رویہ اب بھی جابرانہ ہے بارشوں اور شدید گرمی کے باوجود مظاہرین کو خیمے لگانے کی اجازت نہیں دی جا رہی جس کی وجہ سے متعدد شرکاء شدید تکلیف اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔

اسلام آباد میں موجود بلوچ لواحقین نے سیاسی و انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ دھرنے میں شریک ہو کر ان کی آواز بنیں اور بلوچستان میں جاری ریاستی مظالم اور جبری گمشدگیوں کے خاتمے کا مطالبہ بلند کریں۔