آج کراچی کے علاقے ماڑی پور ٹکری ولیج روڈ میں جبری طور پر لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاجی دھرنا دیا، جہاں مظاہرین اور شہریوں نے سڑک بند کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ ان کے جبری طور پر لاپتہ پیاروں کو فوری طور پر بازیاب کیا جائے اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔
دھرنے میں 17 جولائی کو جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے 25 سالہ طالبعلم زاہد علی، کراچی سے سی ٹی ڈی اور پاکستانی فورسز کے ہاتھوں حراست کے بعد جبری لاپتہ کیے گئے دو بھائی شیر از اور سِلان (جنہیں 23 مئی 2025 کو ماڑی پور میں ان کے گھر سے حراست بعد لاپتہ کیا گیا۔
اور 26 فروری کو برہانی اسپتال کراچی سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے سرفراز بلوچ، اور 15 جون کو لاپتہ ہونے والے عبدالرحمٰن ولد خدا بخش کے لواحقین شریک تھے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان کے پیاروں کو فورسز کے اہلکاروں نے حراست میں لے کر ساتھ لے گئے تھے، جس کے بعد سے وہ منظرِ عام پر نہیں لائے گئے۔
لواحقین نے مطالبہ کیا کہ اگر ان کے پیاروں پر کوئی مقدمہ بنتا ہے یا انہوں نے کوئی جرم کیا ہے، تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے اور قانون کے مطابق سزا دی جائے، لیکن مہینوں گزر جانے کے باوجود انہیں نامعلوم قید خانوں میں رکھا گیا ہے اور لواحقین کو ان کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں۔
واضح رہے کہ کراچی میں جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ لواحقین گزشتہ ایک ماہ سے کراچی پریس کلب کے سامنے بھی دھرنا دیے ہوئے ہیں اور اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پاکستان ہیومین رائٹس کمیشن اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کراچی میں لواحقین کی جانب سے دھرنہ دیے جانے اور انکی لاپتہ پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔