کراچی میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ تاحال جاری ہے، اور یہ احتجاج اپنے 24ویں روز میں داخل ہو چکا ہے۔
کراچی پریس کلب کے باہر قائم احتجاجی دھرنے میں لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ سراپا احتجاج ہیں جہاں وہ اپنے پیاروں کی تصاویر، بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے بیٹھے ہیں جن پر انصاف، بازیابی اور انسانی حقوق کی بحالی کے مطالبات درج ہیں۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کی بازیابی تک احتجاج ختم نہیں کریں گے۔
کراچی سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے طالب علم زاہد علی بلوچ کے والد حمید بلوچ جو گزشتہ چوبیس روز سے کراچی پریس کلب کے سامنے دھرنا دیے ہوئے ہیں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے کو کسی قانونی نوٹس یا عدالتی حکم کے بغیر زبردستی لاپتہ کیا گیا۔
ان کا مؤقف تھا کہ اگر زاہد پر کوئی الزام ہے تو شواہد کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ قانون کے مطابق کارروائی ہو سکے، عدالتوں کو نظر انداز کر کے شہریوں کو غائب کرنا انصاف کا قتل اور آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
کراچی پریس کلب کے سامنے جاری دھرنے میں جبری لاپتہ سرفراز بلوچ کی والدہ بی بی گلشن بلوچ بھی شریک ہیں۔
انہوں نے اس موقع پر کہا کہ ان کا بیٹا سرفراز بے گناہ ہے میرے بیٹے کو کسی جرم کے بغیر گھر سے اٹھایا گیا، اگر میرا بیٹا واقعی کسی مقدمے میں ملوث ہے تو اُسے عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ ہم بھی حقیقت جان سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگی کے اس عمل نے ان کے پورے خاندان کو شدید ذہنی اور معاشی اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔
اسی طرح کراچی ماری پور کے علاقے سنگھور پاڑہ سے تعلق رکھنے والے دو سگے بھائیوں، شیراز اور سیلان بلوچ کے اہلِ خانہ نے بتایا کہ 23 مئی کو کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور دونوں نوجوانوں کو گرفتار کر کے لے گئے جس کے بعد سے ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
ان کی والدہ سبزی بلوچ نے کہا میرے دونوں بیٹے بے گناہ ہیں ان کی گمشدگی نے ہمارا گھر ویران اور زندگی کو اجیرن کردیا ہے، نہ صرف ہم شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں بلکہ ہمارا خاندان معاشی طور پر بھی برباد ہو چکا ہے۔
مزید برآں احتجاجی کیمپ میں شریک مظاہرین کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیاں صرف متاثرہ خاندانوں کے لیے سانحہ نہیں بلکہ یہ ریاست کی جانب سے شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کی سنگین پامالی بھی ہیں۔
مظاہرین نے چیف جسٹس پاکستان، وزیراعظم اور وزیرِ داخلہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس سنگین معاملے کا فوری نوٹس لیں اور لاپتہ نوجوانوں کو عدالتوں میں پیش کیا جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔