پاکستان کے ڈرون حملے، افغان حکومت کا شدید ردعمل کابل میں پاکستانی سفیر طلب

120

افغانستان کے عبوری حکومت نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ شب پاکستان کی جانب سے افغانستان کے مشرقی صوبوں خوست اور ننگرہار میں ڈرون حملے کیے گئے، جن میں عام شہری نشانہ بنے۔

واقعے کے بعد افغان وزارتِ خارجہ نے کابل میں تعینات پاکستانی سفیر کو طلب کر کے سخت احتجاج ریکارڈ کرایا ہے اور ان حملوں کو افغان خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

خوست کے گورنر کے ترجمان مستغفر لابریز نے تصدیق کی ہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی رات تقریباً ساڑھے دس بجے پاکستانی ڈرون نے اسپیرہ ضلع کے سورکاخ علاقے میں ایک عام شہری حاجی نعیم گل کے گھر پر بمباری کی۔ 

ترجمان کے مطابق اس حملے میں خاندان کے تین بچے جانبحق اور پانچ افراد زخمی ہوئے جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔

ترجمان نے واضح کیا کہ متاثرہ خاندان کسی بھی قسم کی مسلح تنظیم سے وابستہ نہیں تھا اور حاجی نعیم گل مقامی سطح پر کاروبار کرنے والا ایک عام تاجر تھا۔

اسی رات ننگرہار صوبے کے ضلع شینواری میں بھی دو الگ الگ ڈرون حملے کیے گئے جن میں ایک ہی خاندان کے چار بچے اور ایک خاتون زخمی ہوئی، ننگرہار گورنر کے دفتر نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ متاثرہ خاندان کا کوئی عسکری یا جنگجو تعلق نہیں تھا اور مکمل طور پر عام شہری تھے۔

افغان وزارتِ خارجہ نے واقعے کے بعد ایک باضابطہ بیان جاری کیا جس میں پاکستان کے ان حملوں کو افغانستان کی فضائی حدود کی واضح اور ناقابل قبول خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ 

وزارت نے مزید کہا کہ یہ حملے نہ صرف افغانستان کی خودمختاری کے خلاف ہیں بلکہ خطے میں کشیدگی کو بڑھانے والا ایک اشتعال انگیز اقدام بھی ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان حکومت اپنے شہریوں کی جان و مال اور قومی خودمختاری کے تحفظ کو ہر قیمت پر یقینی بنائے گی اس قسم کی جارحانہ کارروائیاں ناقابل قبول ہیں اور ان کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

گذشتہ رات ڈرون حملوں پر افغان حکام نے پاکستانی سفیر کو طلب کر کے باضابطہ احتجاجی مراسلہ بھی حوالہ کیا جس میں پاکستان سے فوری وضاحت اور مستقبل میں اس قسم کی کارروائیوں سے گریز کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

ابھی تک پاکستان کی جانب سے اس واقعے پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا، نہ ہی کسی پاکستانی عسکری یا سفارتی ادارے نے ان حملوں کی تصدیق یا تردید کی ہے۔

اسی طرح طالبان کی مرکزی قیادت نے بھی اب تک اس واقعے پر عوامی سطح پر کوئی باضابطہ ردعمل جاری نہیں کیا، تاہم مقامی سطح پر طالبان حکام نے ان حملوں پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات گزشتہ چند سالوں سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں، خصوصاً تحریک طالبان پاکستان کے معاملے پر پاکستان کا موقف ہے کہ ٹی ٹی پی کے ارکان افغانستان میں پناہ لے کر پاکستان میں حملے کرتے ہیں، جبکہ افغان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

پاکستان کی طرف سے پہلے بھی افغان سرزمین پر حملوں کی اطلاعات آئی ہیں، جن کا مقصد مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانا بتایا گیا تھا، مگر اکثر ایسے حملوں میں عام شہریوں کے جانی نقصان کی خبریں سامنے آئی ہیں، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید خراب ہوئے ہیں۔

افغانستان کی عبوری حکومت نے واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کی گئی یہ کارروائی ناقابل برداشت ہے، اور اگر اس روش کو نہ روکا گیا تو خطے میں حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔