خضدار سرکاری حمایت یافتہ گروہ کا خاتون سے جنسی زیادتی، متاثرہ خاتون کی پریس کانفرنس، انصاف کا مطالبہ

97

خضدار کی رہائشی صغرا بی بی فریاد لیکر خضدار پریس کلب پہنچی اور خود صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ مجھے اغوا اور تشدد و زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور مجھے انصاف فراہم کیا جائے ورنہ موت قبول کرلونگی۔

اس موقع پر خاتون کی والدہ نے قرآن پاک ہاتھ میں لیئے پریس کانفرنس میں شرکت کی ۔

خضدار کے نواحی علاقہ کوشک سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون صغریٰ بی بی اپنے ساتھ گذشتہ روز بیتے جانے والے واقعہ کے بعد فریاد لیکر خضدار پریس کلب پہنچی ان کی والدہ ہاتھ میں قرآن پاک اٹھاکر پریس کلب آئی تھی ان کے بہن بھائی اور کزنز و رشتہ دار بھی پریس کانفرنس میں شریک تھیں۔

متاثرہ لڑکی بی بی صغریٰ کا کہنا تھا کہ ان کے پڑوسی اسامہ خدرانی ولد حاجی عمر جو با اثر شخص ہیں انہیں صبح ان کے گھر کے قریب سے اغوا کر لیا تھا۔ صغریٰ بی بی کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ اپنے گھر سے درزی کے پاس جا رہی تھیں جہاں ملزم نے ایک فارچونر گاڑی میں انہیں زبردستی اٹھا لیا۔

صغریٰ بی بی نے میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ اغوا کے بعد ملزم اسامہ نے انہیں شدید کا تشدد کا نشانہ بنایا اور نشہ آور ادویات یا چیزوں کا استعمال کروا کر ان کے ساتھ مبینہ زیادتی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ایک یتیم لڑکی ہوں مجھے جس کرب سے آج گزرنا پڑا وہ بلوچ قوم کی غیرت کا مسئلہ ہے اگر مجھے انصاف نہیں ملا تو میں موت کو قبول کر لوں گی میں زندہ رہنے کی بجائے مرنا پسند کروں گی لیکن اس ظلم کو برداشت نہیں کروں گی۔

صغریٰ بی بی کی والدہ نے پریس کانفرنس میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم غریب لوگ ہیں ہمارا کوئی سہارا نہیں میں اپنی فریاد اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش کرتی ہوں جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے اللہ تعالیٰ ان ظالموں کے ساتھ وہی کرے۔

خاندان کے دیگر افراد نے بھی اس واقعے کی تفصیلات شیئر کیں اور بتایا کہ صغریٰ بی بی کو اغوا کے چند گھنٹے بعد چھوڑ دیا گیا لیکن اس وقت تک ان کی حالت بہت خراب ہو چکی تھی۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ملزم اسامہ ایک بااثر شخص ہے اور ممکن ہے کہ وہ قانون سے بچنے کی کوشش کرے۔

پریس کانفرنس میں موجود رشتہ داروں نے میڈیا سے اپیل کی کہ اس معاملے کو اجاگر کیا جائے تاکہ خواتین کے حقوق کی حفاظت ہو سکے، صغریٰ بی بی نے پریس کانفرنس کے اختتام پر ایک بار پھر فریاد کی کہ مجھے انصاف چاہیے اگر قانون نے مجھے تحفظ نہ دیا تو میں اپنی زندگی ختم کر لوں گی۔

مقامی پولیس حکام سے رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ شکایت درج کر لی گئی ہے اور تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں تاہم ابھی تک ملزم کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

یہ واقعہ خضدار جیسے علاقے میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کی ایک اور مثال ہے جہاں ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں۔

اس سے قبل ایک اور واقعے میں سابق وزیر اعلی ثناء اللہ زہری کے نائب کے بھائی اور مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے ارکان نے ایک خاتون کو اغواء کرکے زبردستی شادی کرنے کی کوشش تھی جس کے خلاف بلوچستان بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔

خضدار سے اغواء ہونے والی خاتون بعد ازاں بازیاب ہوگئی تھی تاہم اغوا کاروں کے خلاف تاحال کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی ہے، مقامی ذرائع کے مطابق صغرہ بی بی سے زیادتی کرنے والے اسامہ ولد حاجی عمر کا تعلق بھی اسی طرح کے سرکاری حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ سے ہے۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں سرکاری حمایت یافتہ گروہ جنھیں مقامی طور پر ڈیتھ اسکواڈز کہا جاتا ہے، متعدد سماجی برائیوں، اغواء برائے تاوان اور بلوچ سیاسی کارکنان جبری گمشدگیوں میں ملوث ہیں۔

بلوچستان کے مقامی سیاسی تنظیموں نے بارہا حکومت سے ان گروہوں کے خلاف کاروائی کرنے اور انکی حمایت بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاہم اس حوالے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی ہے۔