بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل دل مراد بلوچ نے نواب اکبر خان بگٹی کی انیس ویں برسی پر انہیں خراج پیش کرتے ہوئے کہا ہے نواب اکبر خان بگٹی نہ صرف ایک قبائلی و سیاسی رہنما تھے بلکہ ایک جہاندیدہ سیاستدان، گہرا مطالعہ رکھنے والے دانشور، کثیرالجہت انسان اور مشرقی و مغربی ادب کے قدر دان اور بلوچی کلاسیک شعرا کے دلدادہ تھے۔ ان کی شخصیت میں سیاست، ادب، فلسفہ اور تاریخ ایک ساتھ جھلکتے تھے اور ان کی زندگی، پاکستان سے مفاہمت اور آخری عمر میں مزاحمت، انہیں بلوچ قوم میں ایک منفرد اور ناقابلِ فراموش کردار بناتی ہے۔
دل مراد بلوچ نے کہا نواب بگٹی کی سیاسی زندگی کا مطالعہ ہمیں یہ دکھاتا ہے کہ انہوں نے اوائل عمر میں پاکستان کے ساتھ مفاہمت کی سیاست اپنائی۔ وہ اس امید پر ریاستی ڈھانچے کے اندر رہ کر جدوجہد کرتے رہے کہ بلوچوں کے حقوق، وسائل، عزت اور زیادہ سے زیادہ خود مختاری کا تحفظ ممکن بنایا جا سکے مگر پاکستان نے ان کے ساتھ بھی وہی رویہ رکھا جو ایک نوآبادیاتی طاقت اپنے محکوموں کے ساتھ رکھتی ہے۔ ریاست نے ان کی ہر کوشش کو شک اور عدمِ اعتماد سے دیکھا اور ثابت کیا کہ نوآبادیاتی طاقت کے نزدیک مفاہمت یا مزاحمت دونوں بے معنی ہیں کیونکہ نوآبادی کے بنیادی مقاصد قوموں کی فلاح نہیں بلکہ ان کی زمین اور وسائل کا استحصال ہوتا ہے اور پاکستان نے یہی کام کیا۔
انھوں نے کہا نواب اکبر خان بگٹی نے دیکھا کہ پاکستان مفاہمت کی زبان نہیں سمجھتا اور عسکری طاقت کی غرور میں ہر مفاہمتی عمل کو کچلنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے تو انھوں نے متعدد بیماریوں اور پیرانہ سالی میں پس و پیش کے بغیر نوآبادیاتی طاقت کے خلاف سینہ سپر ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ نوآبادیاتی قوت چاہتی ہے کہ محکوم صرف پابہ جولان اور سر تسلیم خم و دستہ بستہ تابع فرمان ہو، جو بھی سر اٹھا کر چلنے کی کوشش کرے گا، اسے کچلا جائے گا۔ نواب اکبر خان بگٹی نے نوآبادیاتی طاقت پاکستان کو اسی کے زبان میں جواب دے کر یہ ثابت کر دیا کہ نوآبادیاتی طاقت کے پاس صرف اور صرف عسکری قوت ہوتی ہے، تاریخ سچائی اور عزم کی بلندی نہیں۔ یوں نواب صاحب نے موت کی راہ چن کر ایٹمی طاقت پاکستان کی عسکری غرور کو خاک میں ملا دیا۔
دل مراد بلوچ نے کہا پاکستانی فوج نے بے دریغ طاقت استعمال کرکے ایک معمر اور بیمار رہنماء کو شہید کیا۔ یہ اقدام اس کی نوآبادیاتی ذہنیت کی کھلی عکاسی تھا۔ ریاست کو یقین تھا کہ اپنے اس عمل اور اس کے نتائج کو بھی اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کر سکتی ہے لیکن نواب بگٹی کی شہادت نے یہ بھرم توڑ دیا۔ ان کا خون بلوچ سرزمین پر گرا تو اس نے بلوچ قومی تحریک کو نئی زندگی بخشا اور بلوچ قوم کے لیے یہ اعلان بن گیا کہ نوآبادیاتی طاقت کا اصل جواب مزاحمت ہی ہے۔
انھوں نے کہا نواب بگٹی کی میت کے ساتھ ہونے والا غیرانسانی سلوک بلوچ کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف تھا۔ پاکستان نے نہ صرف ان کی زندگی بلکہ شہادت کے بعد ایک مغرور اور انسانی اقدار سے محروم نوآبادیاتی طاقت ہونے کا مظاہرہ کرکے نواب صاحب کی میت کو بھی وقار سے محروم کرنے کی کوشش کی لیکن ریاست کی اس توہین نے بلوچ کے شعور کو اور جلا بخشی اور یہ احساس مزید گہرا کیا کہ محکوم قوم کی عزت، وقار اور بقا نوآبادی طاقت کے سامنے سجدہ ریز ہونے میں نہیں صرف قومی اپنی آزادی سے مشروط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر بلوچ نوجوان نواب بگٹی کی قربانی میں اپنے مستقبل کا عکس دیکھتا ہے۔ نواب بگٹی کی شہادت محض ایک شخص کی موت نہیں تھی بلکہ نوآبادیاتی جبر کے خلاف ایک عہد کا آغاز تھی۔ یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک بلوچ اپنی سرزمین پر آزاد، خودمختار اور باوقار زندگی حاصل نہیں کرتا۔ نواب بگٹی کی یاد اور ان کا کردار بلوچ قومی تحریک کے ہر قدم کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہے گا۔