بلوچ قومی جنگِ آزادی، بلوچ قوم کی اجتماعی خواہش، محکومی سے نجات اور حقِ خودارادیت و آزادی کے حصول کے لیے ایک دفاعی جدوجہد ہے۔ میجر گہرام بلوچ

148

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں قومی آزادی کی جو جدوجہد جاری ہے وہ خالصتاً ایک مقامی اور تاریخی مزاحمتی جنگ ہے۔ یہ تحریک آزادی گزشتہ پچھتر برسوں سے مسلسل جاری ہے۔ ہم بلوچوں نے عالمی طاقتوں سے بارہا استدعا کی ہے کہ پاکستان دراصل ایک دہشت گرد اور دہشتگردی کا معان و مرکز ریاست ہے، لہٰذا آپ اس بلوچ -پاکستان تنازعہ میں مداخلت کریں اور بلوچ قومی تحریکِ آزادی کو اخلاقی، سفارتی اور مالی سطح پر امداد اور اعانت فراہم کریں۔ لیکن افسوس کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت، آزادی اور جمہوریت و جمہوری اقدار کے علمبردار امریکہ نے ایک غیر منصفانہ قدم اٹھاتے ہوئے پاکستان کے ساتھ مقبوضہ بلوچستان کے قیمتی معدنیات کی مائننگ سے متعلق معاہدات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اس سے قبل چین نے بھی گوادر ڈیپ سی پورٹ، چین۔پاکستان اقتصادی کوریڈور، اور بلوچ وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے معاہدات کر چکا ہے جس کی بلوچ شدید مزاحمت کر رہے ہیں۔ چین اپنے استعماری کردار اور عزائم کی پردہ داری کیلئے بلوچ قوم دہشتگرد اور تحریک آزادی کو دہشتگردی قرار دے چکا ہے مگر حقائق یہ ہیں کہ بلوچ دہشتگرد نہیں بلکہ اپنے وطن اور وسائل کی تحفظ اور آزادی کیلئے مزاحمت کرنے والے حریت پسند ہیں۔ کوئی ہمیں کیا کہتا ہے اس سے زیادہ ہمارے لیے ہماری قومی بقا، تشخص اور آزادی زیادہ اہم ہیں باقی چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں، ہمارے نزدیک امریکہ کا یہ فیصلہ بھی ایک سنگین ناانصافی ہے۔
بلوچ قومی جنگِ آزادی کسی دوسرے قوم کے زمین یا وسائل پر قبضہ کرنے یا کسی قسم کا کوئی حق جتانے کیلئے نہیں ہے بلکہ بلوچ قوم کی اجتماعی خواہش، محکومی سے نجات اور حقِ خودارادیت و آزادی کے حصول کے لیے ایک دفاعی جدوجہد ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے فوجی جرنیل جو بظاہر اپنے آپ کو امریکہ کے حلیف ظاہر کرتے ہیں، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خود امریکہ بخوبی جانتا ہے کہ یہ دہری پالیسی اور منافقت کے عادی ہیں۔ جیسا کہ امریکی صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 میں خود پاکستان کے دوغلے پن اور منافقت کے بارے میں کُھلے اور صاف الفاظ میں اظہار کرتے ہوئے اس کی امداد بند کردیا تھا۔ اب اسی دوغلے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بلوچستان کے معدنی وسائل اور قدرتی دولت کی فائل امریکہ کو پیش کی ہے۔ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں جو بھی آئے، ہم اپنی معدنیات، اپنے وسائل، اپنی تیل و گیس اور اپنے ساحل کی حفاظت کریں گے۔ اگر کوئی طاقت اس میں مداخلت کرکے بلوچستان کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں پاکستان کا معاون و شراکت دار بنے گا تو بلوچستان اس کے لیے ایک ایسی دلدل بن جائے گا جس میں وہ خود پھنس جائے گی۔ چین اس کی ایک واضح مثال ہے جس کے عزائم گوادر اور سی پیک کے حوالے سے ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ ڈاکٹر مالک کے بیانات اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ گوادر کا ایئرپورٹ عسکری مقاصد کے پیش نظر تعمیر کیا گیا تھا۔ لیکن بلوچ مزاحمت کے باعث برسوں کے باوجود چین اپنے اہداف میں کامیاب نہ ہوسکا۔ ہم سعودی عرب کے فرمانروا سے بھی دست بستہ گزارش کرتے ہیں کہ بلوچستان میں سرمایہ کاری نہ کریں۔ ہمارا اور آپ کا رشتہ ہزاروں برسوں پر محیط ہے، اسے مجروح نہ کریں۔ اسی طرح ہم متحدہ عرب امارات کے حکمران سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ بلوچوں کو تنگ کرنا بند کریں، کیونکہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ پنجاب کے ساتھ آپ کے دوستی کی تاریخ محض پچھتر برس پرانی ہے، جبکہ ہماری اور آپ کی رفاقت ہزاروں سال پرانی بنیادوں پر قائم ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم کو اپنے قومی آزادی کی جنگ کیلئے ہمسایہ ممالک اور عالمی طاقتوں سمیت دنیا کے تمام اقوام کی طرف سے حمایت، امداد اور مالی و فوجی اعانت کی ضرورت ہے مگر ہمیں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں کہ اپنی آزادی کی جنگ کب شروع کریں یا کب بند کریں۔ آج بلوچستان میں بلوچ قوم کی منظم نسل کُشی ہو رہی ہے۔ ایسے واقعات بھی وقوع پذیر ہوئے ہیں جہاں ایک ہی گھرانے کے بارہ افراد کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے، چرواہوں کو تہہ تیغ کیا جاتا ہے، عام لوگوں کو جبراً فوجی کیمپوں میں بلا کر ان سے مشقت لی جاتی ہے، ہمارے اساتذہ، دانشوروں، اسکالرز اور اسٹوڈنٹس کو جامعات سے اغوا کیا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک صحافی کو اس کے بچوں سمیت گیارہ رشتہ داروں کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ ان کا جرم کیا تھا؟ صرف یہ کہ وہ بلوچ تھے۔ بلوچستان کا خطہ آج ایک مکمل جنگی محاذ اور تصادم زون بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم عالمی طاقتوں سے پھر اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں مداخلت کریں اور پنجابی ریاستی دہشت گردی کا سدباب کریں۔ اگر آپ اس میں کامیاب نہیں ہوتے تو کم از کم ہماری معدنیات اور وسائل کو لوٹنے کی کوشش میں شراکت دار نہ بنیں کیونکہ جو بھی ایسا کرے گا، اس کے انجام کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اسی لیے ہم ایک مرتبہ پھر عالمی طاقتوں، بالخصوص امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور چین سے مخاطب ہیں کہ یہ نہ جاپان ہے، نہ آئرلینڈ ہے، نہ کوئی اور خطہ ہے۔ یہ بلوچستان ہے، اور بد خواہوں کیلئے اس کی جغرافیہ جتنا سخت ہے اس سے کہیں زیادہ سخت بلوچ کی مزاحمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپیل کرتے ہیں کہ آپ بلوچ مسئلے کے حل کے لیے آگے آئیں۔ لیکن یاد رکھیں، بلوچ مسئلہ پاکستان کا داخلی مسئلہ نہیں ہے۔