پختگی فکر و جلوہ مزاحمت
تحریر: نعیمہ زہری
دی بلوچستان پوسٹ
صد خئی گنگ مرے چٹ سلے حیران وفا
ہبکہ عشق مرے گر خنے دا مہر نما
نہ آسائش کی طلب، نہ نمائش کی چاہ، نہ انفرادی زندگی کی لذت اور نہ تنگ نظری سے ابھری خواہش کی مانگ۔ زندگی کے دریچوں میں بد ترین زندگی شاید وہ ہو جو انسان پیدائشی طور پر معذور یا کسی جسمانی کمزوری کی وجہ سے اپنے عضو کو کار فرما نہ پائے۔ لیکن اس سے بھی بدتر ہے وہ سوچ اور وہ احساس کہ ایک انسان خوبرو جوانی میں، اپنے ذہنی نشو نما کے لیے، اپنے خاندان کے لیے کچھ کرنے اور دنیا میں خود کو منوانے کے لیے تعلیم کی طرف راغب ہو اور اسے اچانک کسی خوشی کے دن صرف عوام کو ایک میسج دینے کے لیے بم سے اڑا کر زندگی بھر کے لیے اپاہج کر دیا جائے۔
شاید اپاہج لفظ ان افراد کے لیے بولا جا سکتا ہے جو اس معذوری کو ایک جواز بنا کر اپنی زندگی کو ساکن بنا کر زندگی بھر کے لیے ذہنی طور پر ہار جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو اس سے ابھرتے ہیں اور اس سے آگے نکل جاتے ہیں وہ اپاہج نہیں بلکہ وہ مضبوطی اور محکم ہونے کی علامت ہوتے ہیں۔ اور ان سے بھی کہیں زیادہ مضبوط ہوتے ہیں وہ لوگ جو اس حالت میں نہ صرف قوم کی آواز بنتے ہیں بلکہ وہ ان کے لیے سامراج کو اس کا وہ چہرہ دکھاتے ہیں کہ وہ اس شخص سے خوف کھانے لگتا ہے۔
جب ننھی سی برمش کی والدہ کو نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے گولی مار کر شہید کیا تو بلوچستان کی منجمد سیاست کو پگھلنے کا موقع ملا۔ جوانوں سے لیکر بوڑھے، عمر رسیدہ بزرگوں نے بوسیدہ خیالات کی گود سے پنپتی ہوئی دقیانوسی روایات کو پیچھے چھوڑا جو عورت کو ایک گھریلو سماجی سے زیادہ کوئی شے نہیں سمجھتے تھے۔ اب عورتیں آگے آئیں، انہوں نے رہبری کرنے کی ٹھانی، ظلم و ناانصافی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کا سوچا۔
ملک ناز سے پہلے حیات بلوچ کو ایک سپاہی نے آٹھ گولیاں داغ کر اسی پالیسی کی پرچار کی تھی۔ احتشام جو اسلامک یونیورسٹی کے دوسرے سیمسٹر کا طالب علم تھا، گولیوں سے چھلنی کر کے ان کے والدین کو ان کی لاش تحفے میں دی۔ نشتر ہسپتال کی چھت پر پانچ سو سے زیادہ لاشوں کو بنا گور و کفن کے دھوپ میں سڑنے کے لیے چھوڑا گیا تھا اور دس سال سے روڑوں پر اپنے والد کی بازیابی کی دہائی دیتا ذیشان بھی اسی ناروا اور ماورائے قانون قتل کا شکار ہوا، جب جبری لاپتہ اور رات کی تاریکی میں گولیوں سے چھلنی کر کے پھینک دیا گیا۔
اس درد و اندوہ کو تقریباً ہر بلوچ نے اپنی آنکھوں دیکھے حال کی طرح محسوس کیا ہے۔ لیکن سامراج کے سامنے بہت کم ایسے سیاسی کارکن ہوتے ہیں جو ڈٹ کر کھڑے ہوں اور اس کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لیں۔
بیبگر بلوچ کا جسم شاید مضمحل اور تھکا ہوا ہو، لیکن اس کی سوچ اور شعور اس حد تک پختہ ہے کہ نہ اسے معذوری نے کمزور کیا اور نہ ہی غیر قانونی اور غیر سنجیدہ پالیسیوں سے ابھری قید و بند نے۔ چار مہینوں سے قید و بند کی صحبتوں کو سہتا ہوا جب وہ عدالت میں پیش ہوا تو ان کا چہرہ نہ صرف مسکراتا ہوا دکھائی دیا بلکہ وہ خود پر ہوئے ظلم و زیادتیوں کی دہائی دینے کی بجائے اپنے اسلاف کی قربانیوں کو یاد کرتا ہے اور قوم کو یاد دلاتا ہے کہ ہم سے پہلے اور آج بھی ہمارے لیے اور قوم کے لیے کئی بلوچ فرزندوں نے قید و بند سہے ہیں بلکہ اپنا خون بھی بہایا ہے۔ سامراج ہمیشہ علم و شعور سے لیس سیاسی کارکنوں سے خوفزدہ ہوتا ہے۔
طبع شعور و فکر کی زد پر رہا ہے اختیار
صدیوں سے شیخ و شاہ کو ہم سے عناد ایک ہے
دنیا کی تاریخ میں کہیں ایسے نمایاں کردار آئے ہیں جنہوں نے اپنی معذوری کے باوجود نمایاں کردار ادا کیے اور دنیا کو حیران کیا۔ البتہ انسانی کارکن اور سامراج کے سامنے ڈٹنے والے بہت کم ہی ہوئے ہیں۔ بلوچ سماج میں بی بی بانڑی اور بی بی گل بی بی جیسی دلیر خواتین رہی ہیں لیکن بلوچ تاریخ میں پہلی دفعہ ہے کہ ایک چلنے سے محروم شخص انسانیت کے لیے، اپنی سیاسی اور انسانی اقدار کے لیے سلاخوں کے پیچھے اذیت سہ رہا ہو۔
درد کے کھیت میں مسکان اگانے والا
کتنا خوش ظرف ہے زخموں کو چھپانے والا
شاید یہ مزاحمت کا سرور ہے جو عاشق کو دیوانہ، مجنون کو پتھر کھانے کے لیے آمادہ کرتا ہے، پروانے کو آگ کی لپٹوں سے کھیل کر خود کو شعلوں کی نذر کراتا ہے اور مزاحمت کو زندگی سمجھنے والے بے یارو مددگاروں کو آواز کی طاقت دکھاتا ہے اور سامراج کو للکارنے کے لیے اکساتا ہے۔ امام حسین سے لیکر منصور انالحق تک اور پندرہویں صدی کے مارٹن لوتھر سے لیکر بیسویں صدی کے مارٹن لوتھر کنگ تک اور ان سے لیکر فیض تک بلاقدغن و تنقید کے سامراج کو ہمیشہ اقوام کی موت قرار دیا ہے۔
چلتے ہیں دبے پاؤں کہ کوئی جاگ نہ جائے
غلامی کے اسیروں کی یہی خاص ادا ہے
ہوتی نہیں قوم جو حق بات پہ یکجا
اس قوم کا حاکم ہی بس اس کی سزا ہے
وہی لوگ ہی تاریخ کے صفحات میں اپنا نام لکھ پاتے ہیں جو رائج نظام کو چیلنج کر کے ذاتی مفاد سے اوپر سوچتے ہیں اور انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور جو انفرادیت سے اوپر نکل کر اجتماعیت کی حدوں کو چھوتے ہیں وہی تاریخ کے سیاہ اوراق میں سنہرے حروف کے حقدار ہوتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔