شاشان – فرحان بلوچ

100

شاشان

تحریر: فرحان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی خوبصورتی کا سب سے خاص راز اس کے دلکش پہاڑ ہیں، کوہِ چلتن سے لے کر بولان، ناگاؤ، شور، پارود، راسکوہ، کوہِ ماران، کوہِ شعبان اور شاشان، یہ سب پہاڑ اپنی مثال آپ ہیں۔ ان پہاڑوں کی خوبصورتی الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی، صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہ کسی جنت سے کم نہیں۔

شاشان ایک پہاڑ کا نام بھی ہے، اور شاشان میرے دوست صفیان کا عرف بھی، دونوں کی خوبصورتی یوسفِ مصر سے کم نہیں۔

وہ تو صُفیان تھا، دشت کے میدانوں کا مسافر پھر وہ چیئرمین بن گیا، ایسا چیئرمین جو دوستوں کو تاریخی کتابیں دیا کرتا تھا، وہ کبھی اِس کتاب میں گُم ہوتا، کبھی اُس کتاب میں، یوں گُمان ہوتا تھا جیسے وہ ایک چلتی پھرتی لائبریری ہو۔ نرم و خاموش مزاج لڑکا، جو اکثر چپ رہتا، اور جب بات کرتا تو یوں لگتا جیسے کوئی کتاب کو ربِ کائنات نے زبان بخشی ہو۔

وہ شہر میں رہ کر نوجوان طلبا کا چیئرمین تھا، وہ اس قدر مضبوط تھا کہ زمین نے اُسے چیئرمین سے کھینچ کر پہاڑوں میں پہنچا دیا، اور شاشان کا پہاڑ بنا دیا۔

ایسا پہاڑ، جو بندوق کو سینے سے یوں لگا کر رکھتا جیسے کتاب ہو۔ جو پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ کر روز سرزمین کو محبوب کی طرح دیکھتا، اور اُس کی حفاظت کا عہد خود سے کرتا۔ یہی سچا ایمان ہے، اور دنیا کا سب سے عظیم عشق۔ اب اِس عشق کو آپ جو بھی نام دیں، میرے نزدیک یہ دنیا کا سب سے پاک اور مقدس عشق ہے۔

لاہور جیسے شہر میں خوشحال زندگی گزارنے، پڑھ لکھ کر ایک ریاستی مشینری کا حصّہ بننے، اور غلامی کی زندگی گزارنے کے بجائے، پہاڑوں کا رُخ کرنا اور اپنی قومی فوج میں بطور سپاہی شامل ہونا، کسی بھی بلوچ نوجوان کی شعوری پختگی کا واضح ثبوت ہے۔

اور جب یہ سپاہی پہاڑوں پر بیٹھ کر بلوچستان کی آزادی کے لیے دن رات محنت کرتا ہے، تو بہت ہی کم وقت میں اس کی قابلیت اُسے کیمپ کمانڈر کے عُہدے پہ فائز کرتی ہے۔

وہ ہر دوست سے مشورہ کرتا، دوستوں سے بے حد محبت کرتا، اور ہر کام کو اپنا فرض سمجھ کر انجام دیتا۔ اس کی محبت اور بلوچستان سے عشق کا اندازہ شاشان کے آخری دن سے لگایا جا سکتا ہے—کیسے اُس نے اپنے دوستوں کو دشمن سے بچایا اور خود ایک پہاڑ کی مانند دشمن کے سامنے ڈٹ گیا۔ اور جب وہ شہید ہوا، تو بلوچستان کا پرچم اس کے سینے سے لگا ہوا تھا، یہی اُس کے عشق کی گواہی ہے۔

صُفیان جیسے کردار جب وطن کے لیے قربان ہوتے ہیں، تو وہ نئی نسل میں ایک نئی روح پھونک دیتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے ہیرو ہمیشہ ہزاروں میں آتے رہے ہیں۔ بے شک، احسان، شہداد، آفتاب اور صُفیان جیسے عظیم لوگ اپنی جگہ بنا گئے ہیں، اور ہمیں بشیر بننے کا عہد کرنا ہوگا۔

خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے صُفیان کو دیکھا۔ اُن خوش نصیبوں کی فہرست میں ایک انسان میں بھی ہوں۔ بدقسمتی صرف یہ ہے کہ وہ مجھ سے پہلے اس زمین پر قربان ہو گیا، اور اُس نے اپنی مٹی کا حق ادا کر دیا، جبکہ آج تک میں اپنا حق ادا نہ کر سکا۔ وہ حق، جو ہر بلوچ پر فرض ہے، بشرطیکہ اگر وہ سمجھ سکے۔

یار شاشان! مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب پہلی بار میں نے تمہیں اُس سفر کے دوران دیکھا۔ جب تم بطور تنظیمی ذمہ دار ہمارے آگے آگے ہمیں راستہ دکھا رہے تھے۔ تم آگے تھے، ہم تمہارے پیچھے، جب ہم پہاڑ کے دامن میں موجود درخت کے سائے تلے بیٹھے دوسرے دوستوں کے پاس پہنچے، تو ایک سنگت دور سے دیکھتے ہی زور زور سے ہنسنے لگا، اور میں بھی اُس کو دیکھ کر بےتحاشا ہنسنے لگا، جیسے دو پاگل بغیر کسی وجہ کے ہنسنے لگیں۔

سب دوست حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے، میں نے ہنستے ہوئے کہا، “یار! سب سنگت ہمیں پاگل سمجھیں گے، اب تھوڑا چپ ہو جاؤ۔” تو سنگت نے کہا، “یار، مجھے پہلے سے پتہ تھا تم آ رہے ہو، اور میں نے کہا تھا کہ آج ایک انٹرنیشنل پاگل سے ملاقات ہونے والی ہے۔” پھر اُس نے ہنستے ہوئے کہا، “میں نے تمہارا سارا ریکارڈ دوستوں کو بتایا ہے، اس لیے شریف بننے کی اداکاری مت کرنا۔”

اُسی وقت ایک اور سنگت، نرم مزاج اور خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ میرے سامنے آیا۔ میں نے پوچھا، “یار، یہ کون ہے؟” تو اُس نے کہا، “یہ تو چیئرمین ہے… اپنا شاشان!”

پھر وہی مری بلوچ والا حال احوال ہوا۔ اور میں نے کہا، “یار، میں اسے جانتا ہوں، لیکن یہ مجھے نہیں جانتا شاید، مگر ایسا لگتا ہے جیسے میں نے اسے کئی بار دیکھا ہے۔”

سنگت نے کہا، “میرا نام شاشان ہے۔” میں نے کہا، “نہیں یار، یہ نام تو میں نے نہیں سنا۔ شاید میں غلط ہوں۔” لیکن جب میں نے غور سے شاشان کو دیکھنا شروع کیا، تو اُس کی خوبصورتی دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اُس کی آنکھیں یوں لگتی تھیں جیسے کسی فنکار نے خاص طور پر تراشی ہوں۔ بانُک کریمہ کے بعد میں نے ایسی آنکھیں کسی کی نہیں دیکھیں۔

شاشان کی آنکھیں ایسی تھیں کہ دیکھتے ہی کوئی فدا ہو جائے۔ جیسے ہرن کی آنکھیں ہوتی ہیں، ویسی ہی کشش اُن میں تھی۔ میں اُس کے حسن کا دیوانہ ہو گیا تھا۔ آج بھی میں خود کو کوستا ہوں کہ اُس دن نظریں کیوں ہٹا لیں؟ اور ہاں! ایک بات تو میں بھول ہی گیا—اس کی خوبصورتی کے مقابلے میں اُس کے کپڑے ایک مزاحیہ داستان تھے۔ شاید مہینوں تک پانی کا منہ نہ دیکھا ہو۔ ان پر سگریٹ کے داغ اور دُھول مٹی جمی ہوئی تھی، جیسے کسی بچے نے قلفی کھا کر اپنے کپڑے خراب کر دیے ہوں۔

شاشان جتنا خوبصورت تھا، اُس کی شاعری اُس سے بھی زیادہ دلکش تھی۔ دوست اُسے چھیڑتے ہوئے کہتے تھے، “ابصار کے ساتھ رہ کر خود کو شاعرِ ابصار سمجھتا ہے، یہ پاگل شاشان!”

ایک دوست نے مُسکرا کر بولا، “آج کل ہر دیوان میں بس شاشان کا نام ہے، شاشان کی تعریفیں اور کُچھ نہیں۔”

شاشان تھوڑی دیر خاموش ہونے کے بعد مُسکرا کر بولا، “یہ میرے لیے فخر کی بات ہے کہ آج میری قوم کے طلبہ مجھے اتنا چاہتے ہیں۔ یہ میری شکل و صورت کی وجہ سے نہیں، بلکہ میرے مقصد اور نظریے کی وجہ سے ہے۔” اور اسی لیے شاشان نے کہا، “میں اپنی قوم کی اس شعوری پختگی کو سلام پیش کرتا ہوں۔”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔