آزادی: قربانی کی کوکھ سے جنم لینے والی روشنی
تحریر: سفرخان بلوچ (آسگال)
دی بلوچستان پوسٹ
آزادی محض ایک سیاسی کیفیت نہیں، بلکہ ایک روحانی تجربہ ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان اپنی اصل پہچان کو دریافت کرتا ہے اور غلامی کے اندھیروں کے بعد روشنی کی پہلی کرن کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔
آزادی حسین اس لیے ہے کہ یہ دکھ، جدوجہد اور قربانی کے کٹھن راستوں سے گزر کر نصیب ہوتی ہے۔ اگر یہ آسانی سے مل جاتی تو شاید اس کی قدر بھی نہ ہوتی۔ لیکن جب یہ صدیوں کی غلامی اور قربانی کے بعد ملتی ہے تو یہ نعمت نہیں بلکہ ایک امانت بن جاتی ہے۔
غلامی انسان سے صرف زمین نہیں چھینتی بلکہ اس کے وجود، اس کی روح، اور اس کی پہچان کو بھی زنجیروں میں جکڑ دیتی ہے۔ اسی لیے جب غلام انسان آزادی کی فضا میں سانس لیتا ہے تو وہ ہر لمحے کو جیتا ہے، ہر سانس کو شکر گزاری کے ساتھ محسوس کرتا ہے، اور ہر دن کو خدا کی طرف سے عطا کردہ انعام سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی ہمیشہ خوبصورت رہتی ہے۔ کیونکہ یہ دکھ کے اندھیروں میں جنم لیتی ہے اور خوشبو بن کر نسلوں تک پہنچتی ہے۔ اس لئے سارتر نے کہا تھا “ انسان مجبور ہے کہ وہ آزاد ہو۔ اس جملے میں آزادی کی سنگینی بھی ہے اور اس کی خوبصورتی بھی۔ کیونکہ آزادی کے بغیر انسان اپنی ذمہ داریوں اور اپنی حقیقت سے محروم رہتا ہے۔
تاریخ اور فلسفہ ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ آزادی حسین اس لیے ہے کہ یہ قربانی، جدوجہد اور شعور کے سفر کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ غلامی کے اندھیروں سے نکل کر جب انسان آزادی کی فضا میں سانس لیتا ہے تو وہ صرف ایک لمحے کی خوشی نہیں پاتا، بلکہ اپنی پوری ذات کو دوبارہ دریافت کرتا ہے۔ یہی آزادی کی خوبصورتی ہے۔
قدیم یونان میں سقراط نے یہ بتایا کہ آزادی کا مطلب صرف جسمانی قید سے نجات نہیں بلکہ اپنی روح اور ضمیر کے مطابق جینا ہے۔ اس نے زہر کا پیالہ پینا قبول کیا، لیکن اپنے نظریات سے دستبردار ہونا قبول نہ کیا۔ اس کا یہ عمل بتاتا ہے کہ آزادی کا اصل مطلب ضمیر اور شعور کی آزادی ہے۔
روسو نے کہا تھا ” انسان آزاد پیدا ہوتا ہے مگر سماج نے اسے جکڑ دیا ہے۔ روسو کے مطابق آزادی صرف فرد کا نہیں بلکہ معاشرے کا اجتماعی حق ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب سماجی معاہدہ انصاف اور برابری پر قائم ہو۔
جان لاک نے انسانی آزادی کو بنیادی حق قرار دیا۔ اس کے نزدیک حکومتیں اس وقت جائز ہیں جب وہ عوام کی آزادی اور حقوق کی حفاظت کریں۔ اگر کوئی حکومت آزادی چھین لے تو وہ اپنی جائز حیثیت کھو دیتی ہے۔ جان لاک کی یہ سوچ آج بھی جدید جمہوری نظاموں کی بنیاد ہے۔
ہائڈگر نے آزادی کو انسانی وجود کی اصل قرار دیا۔ اس کے مطابق انسان اس وقت تک اپنی حقیقت کو نہیں پہچان سکتا جب تک وہ اپنی موت اور اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھے۔ غلامی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی ذات سے غافل رہے، اور آزادی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے وجود کو شعوری طور پر پہچانے۔
ایمانوئل کانٹ کے نزدیک آزادی کا مطلب ہے اپنے اخلاقی اصولوں کے مطابق جینا۔ اس نے کہا کہ انسان اس وقت حقیقی طور پر آزاد ہوتا ہے جب وہ اخلاقی قانون کی پیروی کرے۔ غلامی میں یہ ممکن نہیں کیونکہ وہاں انسان کے فیصلے کسی اور کے جبر کے تابع ہوتے ہیں۔
سارتر کے مطابق آزادی کا مطلب ہے انتخاب کرنا۔ انسان کو یہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنی زندگی خود بنائے۔ مگر اس آزادی کے ساتھ ذمہ داری بھی آتی ہے۔ غلامی انسان سے یہ طاقت چھین لیتی ہے، اور جب آزادی واپس ملتی ہے تو اس کی قدر بڑھ جاتی ہے، کیونکہ انسان جانتا ہے کہ یہ اس کے وجود کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بے شمار اقوام غلامی کی زنجیروں میں جکڑی گئیں، لیکن جب ان کے اندر کی آگ بجھنے کے بجائے اور بھڑکی تو انہوں نے انہی زنجیروں کو توڑ کر آزادی حاصل کی۔ ہر قوم کی کہانی ایک ہی صدا دہراتی ہے کہ غلامی عارضی ہے اور آزادی دائمی۔ اسی تسلسل میں ویتنام کی جدوجہد انسانی حوصلے کی سب سے روشن مثال کے طور پر سامنے آتی ہے۔ایک چھوٹی سی قوم صدیوں تک نوآبادیاتی طاقتوں کے زیرِ اثر رہی۔ فرانسیسی قبضے کے بعد امریکی مداخلت نے غلامی کے زخموں کو مزید گہرا کیا۔ لیکن ویتنامی عوام نے ہتھیاروں سے زیادہ اپنے حوصلوں پر بھروسہ کیا۔
ہو چی منہ نے کہا تھا “آزادی اور آزادی کے بغیر زندگی موت کے مترادف ہے۔” یہی جذبہ تھا جس نے ویتنام کو اس مقام پر پہنچایا جہاں ایک غریب اور چھوٹی قوم نے بڑی طاقتوں کے غرور کو توڑ ڈالا۔ ان کی قربانیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ آزادی زمین واپس لینے کا نام نہیں بلکہ اپنی روح اور عزتِ نفس کو دوبارہ حاصل کرنے کا نام ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب غلامی کا زہر آزادی کے امرت میں بدل جاتا ہے۔
الجزائر کی آزادی کی جدوجہد ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ آزادی کی قیمت ہمیشہ لہو میں ادا ہوتی ہے۔ فرانسیسی نوآبادیاتی حکومت نے ایک صدی سے زیادہ عرصے تک الجزائر پر حکمرانی کی۔ زمینوں کو لوٹا گیا، زبان کو دبایا گیا، اور تہذیب کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن جب آزادی کی جنگ شروع ہوئی تو یہ صرف ایک سیاسی بغاوت نہ تھی بلکہ شناخت اور وجود کی بازیافت تھی۔
لاکھوں الجزائریوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ عورتیں، مرد، بچے سب قربان ہوئے تاکہ ایک دن آزادی کی صبح طلوع ہو سکے۔ فینن نے اس جدوجہد کے بارے میں کہا کہ یہ محض زمین کا سوال نہیں بلکہ “انسان کی کھوئی ہوئی انسانیت کو دوبارہ حاصل کرنے کی جنگ تھی۔” اور جب آزادی ملی تو وہ صرف ایک قومی فتح نہیں تھی بلکہ ایک روحانی نجات تھی جس نے دکھایا کہ آزادی کا حسن قربانیوں کی گہرائیوں سے پھوٹتا ہے۔
آزادی دکھوں کے ریگستان میں امید کا درخت ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جو نسل در نسل جلتا ہے، وہ خوشبو ہے جو لہو میں پلتی ہے، اور وہ دعا ہے جو غلامی کے اندھیروں میں صدیوں تک گونجتی ہے۔
آزادی حسین ہے کیونکہ یہ آسانی سے نہیں ملتی، بلکہ یہ جدوجہد اور قربانی کی خاک سے جنم لیتی ہے۔ اور یہی آزادی کا حسن ہے کہ یہ جدوجہد اور دکھ کے بعد نصیب ہوتی ہے۔
آج بلوچستان انہی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے جن میں کبھی ویتنام کے گاؤں اور الجزائر کی وادیاں قید تھیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سامراجی قوتیں جب کسی سرزمین پر قبضہ کرتی ہیں تو وہاں کے کھیت لہو سے سرخ اور گلیاں سناٹے سے بوجھل ہو جاتی ہیں۔ ویتنام کے دھان کے کھیت جو کبھی زندگی کی علامت تھے، غلامی کی راتوں میں خون سے رنگ گئے، الجزائر کی گلیاں جہاں کبھی خوشبوئیں بسی تھیں، غلامی کے دنوں روشنی کے بجائے اندوہ کی رات بسیرا کرتی تھی۔ آج بلوچستان کی وادیاں بھی اسی دکھ کی تصویر ہیں، وہی خالی نظروں والی مائیں، وہی مٹی میں بکھری یادیں، وہی لہو سے تر زمین، لیکن تاریخ یہ بھی گواہ ہے کہ یہ سب منظر عارضی ہیں۔ جس طرح ویتنام کے کھیتوں نے آخرکار آزادی کی خوشبو کو دوبارہ جنم دیا، اور الجزائر کی گلیوں میں غلامی کی بجائے جشنِ آزادی کے ترانے گونجے، اسی طرح بلوچستان کا کل بھی وہی ہوگا جو ہمیشہ آزاد اقوام کا مقدر رہا ہے۔ غلامی کا اندھیرا کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو، آزادی کی صبح اس سے زیادہ روشن ہوا کرتی ہے۔
آج بلوچ مائیں آنسوؤں کے چراغ جلا رہی ہیں۔ ان کے بین ہوا میں دعا بن رہے ہیں اور ان کی چیخیں وقت کے سینے پر لکھی جا رہی ہیں۔ مگر یہ آنسو رائیگاں نہیں جائیں گے۔ یہ صدیوں کا دکھ ایک دن گل و خوشبو بن جائے گا۔ جس دن بلوچستان کے پہاڑ آزادی کی اذان سنیں گے، اس دن یہی ماؤں کے آنسو وادیوں میں روشنی برسائیں گے۔ وہ صبح طلوع ہوگی جس کے نور میں غلامی کے سائے مٹ جائیں گے، دریاؤں کا شور تسبیح بنے گا، پہاڑوں کی خاموشی قوال بنے گی، اور ماؤں کے دل سکون کے سمندر میں ڈوب جائیں گے۔
تاریخ اس دن کہے گی۔ یہی آنسو تھے جنہوں نے آزادی کی صبح کو جنم دیا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔