نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی “این ڈی پی” نے اپنے مرکزی رہنما غنی بلوچ کی جبری گمشدگی کو تین ماہ مکمل ہونے اور ایک اور رہنما ثنا بلوچ کی مسلسل گمشدگی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پارٹی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں جمہوری سیاست کو دانستہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ریاستی ادارے سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی کے عمل میں براہ راست ملوث ہیں۔
پارٹی کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ غنی بلوچ جو ایک اسکالر اور باشعور سیاسی رہنما تھے کو 25 مئی کو خضدار سے لاپتہ کیا گیا اور تین ماہ گزر جانے کے باوجود ان کی گرفتاری کسی بھی فورم پر ظاہر نہیں کی گئی۔
بیان کے مطابق ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی خاموشی اور ایف سی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے انکار ظاہر کرتا ہے کہ ریاستی ادارے اس گمشدگی میں ملوث ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ غنی بلوچ صرف ایک فرد نہیں بلکہ پارٹی کی پرامن اور شعوری جدوجہد کی علامت تھے ان کی جبری گمشدگی کو پارٹی نے اپنی جدوجہد پر حملہ قرار دیا ہے۔
ترجمان کے مطابق غنی بلوچ کی علمی وابستگی کتاب دوستی اور بلوچ عوام کے لیے شعور و ترقی کی بات کرنا ہی ان کے اغواء کی اصل وجہ ہے۔
پارٹی کے مطابق جبری گمشدگی کا یہ عمل صرف نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی تک محدود نہیں بلکہ بلوچستان بھر میں درجنوں سیاسی کارکن، ادیب اور طلبہ تنظیموں سے وابستہ افراد ریاستی جبر کا سامنا کر رہے ہیں صرف گزشتہ چھ ماہ میں 800 سے زائد افراد کو لاپتہ کیا گیا ہے۔
بیان میں انکشاف کیا گیا کہ پارٹی کے ایک اور مرکزی رہنما، ثنا بلوچ کو بھی 10 اگست کو ملتان ایئرپورٹ پر ایف آئی اے نے حراست میں لیا مگر اب تک ان کی گرفتاری ظاہر نہیں کی گئی اس واقعے کو ترجمان نے بلوچستان میں سیاست کو جرم بنانے کی ایک اور کڑی قرار دیا۔
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے رہنماؤں اور کارکنان کی بازیابی کے لیے ہر سطح پر جدوجہد جاری رکھے گی، پارٹی کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگی جیسے اقدامات ان کے حوصلے پست نہیں کر سکتے، بلکہ یہ ان کی تحریک کو مزید مضبوط اور مربوط بنا رہے ہیں۔