آخری دیدار – فدائی مہزام بلوچ

174

آخری دیدار

تحریر: فدائی مہزام بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے۔ ایک سپاہی کی زندگی اس کے ملک سے زیادہ قیمتی نہیں ہوتی۔ اگر اسے اپنے وطن کی حفاظت کے لیے جان بھی دینی پڑے تو وہ اس میں ذرہ بھر ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ اسی جذبے کے تحت میں آپ کو اپنے ایک قریبی دوست کی کہانی سنانے جا رہا ہوں، جس کا نام سربلند تھا۔ بچپن ہی سے سربلند کے دل میں اپنے وطن کے لیے بے پناہ محبت اور اپنی جان قربان کرنے کا جذبہ موجود تھا۔

سربلند میرے لیے سب کچھ تھا۔ میری بہت قریبی دوست، بلکہ یوں کہوں کہ میری روح کی ساتھی تھا۔ ایک دن میں اپنے کیمپ میں بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے ایک پیغام موصول ہوا: “Hi”
جب میں نے دیکھا تو وہ سربلند کا میسج تھا۔ میں نے جواب دیا: “Hi، کیسے ہو؟”
پھر فوراً ہی اس کی کال آئی۔ میں نے کال اٹھائی، سلام دعا ہوئی۔ اس نے کہا: “میں آپ کے وتاخ کے قریب ہوں، ہو سکے تو آؤ، میں آپ کو دیکھنا چاہتی ہوں۔”
پھر ہم نے کچھ ہنسی مذاق کی۔ میں نے کہا: “ٹھیک ہے، آپ لوکیشن بھیج دو، میں دوستوں سے اجازت لیتا ہوں، اگر اجازت ملی تو ضرور آؤں گی۔”

اس نے فوراً لوکیشن بھیج دیا۔ دوستوں نے اجازت دی تو میں روانہ ہو گیا۔ جب میں لوکیشن کے قریب پہنچا، تو اسے فون کیا اور بتایا:
“میں قریب ہوں۔”
اس نے کہا: “ٹھیک ہے، میں آ رہا ہوں۔”

پھر وہ آیا، مجھے گلے لگایا، اور ہم دونوں وتاخ کی طرف چل دیے۔ ہم کچھ دن ایک ساتھ رہیں۔ ان دنوں میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ تھی جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

میں نے پوچھا: “بلو، اس مسکراہٹ کی کیا وجہ ہے؟”
اس نے ہنستے ہوئے کہا: “تھوڑا صبر رکھو، کل بتاؤں گا۔ اگر آج ہی بتا دوں تو مزہ نہیں آئے گا۔”

اگلے دن شام کے وقت وہ پھر مسکراتے ہوئے میرے پاس آیا اور کہنے لگی: “جو خواب میں نے بچپن سے دیکھا تھا، وہ آخرکار پورا ہونے جا رہا ہے۔”
وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ: “مجھے بولان کے کیمپ میں بھیجو۔” میں نے سوچا شاید اب وہ بولان جا رہی ہے۔ میں نے پوچھا: “کیا تم جلد واپس آؤ گے؟”

اس کے چہرے پر پھر ایک پیاری سی مسکراہٹ آئی، اس نے اثبات میں سر ہلایا، لیکن اس کی آنکھوں کی چمک کچھ اور ہی کہانی سنارہی تھی۔ مجھے دل ہی دل میں یقین ہو گیا کہ وہ شاید واپس نہ آئے۔

میں اسے گلے لگا کر زور زور سے رونے لگا، اور وہ مجھے تسلی دیتا رہا۔ دل چاہا کہ روک لوں، کہہ دوں: “سربلند، مت جاؤ!” لیکن اس کت آنکھوں میں جو جذبہ اور شجاعت تھی، وہ مجھے خاموش کر گیا۔

وہ چلا گیا۔۔۔

پندرہ دن گزر گئے۔ ایک شام میں سفر میں تھا کہ ایک کال آئی۔ میرے دوست نے فون اٹھایا۔ دوسری طرف سے آواز آئی: “گوادر میں ایک فدائین حملہ ہوا ہے۔ بی ایل اے مجید بریگیڈ نے ذمہ داری قبول کی ہے، اور سنگت کا نام بھی بتایا ہے۔” میں چونک گیا۔ میں نے فوراً پوچھا: “سنگت کا نام کیا ہے؟”
اس نے کہا: “نام ‘سربلند’ ہے۔”

سربلند کا نام سنتے ہی میری حالت غیر ہو گئی۔ میں ساکت ہو گیا، جیسے وقت تھم گیا ہو۔ ایک دوست نے میرا ہاتھ پکڑا، میں چونک گیا۔ اس نے پوچھا: “کیا آپ سنگت کو جانتے ہیں؟”
میرے لبوں سے صرف ایک آواز نکلی: “ہاں، وہ میرا جان تھا۔”

دوستوں نے کہا: “کیا آپ کے پاس اس کی تصویر ہے؟”
میں نے کہا: “ہاں، سربلند نے جاتے وقت کہا تھا: ‘میرو، آؤ میری ایک تصویر لے لو۔’”

میں نے ان کو وہ تصویر دکھائی۔ سب دوستوں نے تصویر دیکھی، اور ان کی زبان سے صرف ایک لفظ نکلا: “اُڑے قربان۔”

جب میں وتاخ پہنچا، موبائل کھولا، تو ہر جگہ سربلند کی تصویر اور اس کی مسکراہٹ تھی۔ میں وہ تصویر دیکھ نہیں پا رہا تھا، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا اور زار و قطار رونے لگا۔

اسی لمحے مجھے ایک آواز سنائی دی: “میرو…”

وہ سربلند کی آواز تھی۔ کہنے لگی: “میرو، اپنا حوصلہ بلند رکھو۔ میں ہر وقت تمہارے ساتھ ہوں۔ ہر ایک سرمچار میں ہوں۔ تمہارے اندر ہوں۔ جسمانی طور پر جا چکا ہوں، لیکن روحانی طور پر ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔ دشمن کو بتاؤ ہم کون ہیں۔ ہماری قربانیوں کو دنیا کے سامنے لاؤ۔”

بلند جان، پتہ نہیں وہ آواز حقیقت تھی یا میری وہم، لیکن اس نے مجھے راستہ دکھایا، مجھے حوصلہ دیا۔ میں ہر وقت تمہیں اپنے آس پاس محسوس کرتا ہوں۔ تمہاری مسکراہٹ میری آنکھوں میں بسی ہوئی ہے۔ شاید یہ وہم ہو، لیکن مجھے یقین ہے، تم واقعی میرے ساتھ ہو۔

بلند جان، تم بہت یاد آ رہے ہو۔ کچھ دنوں سے تم میرے خوابوں میں بھی نہیں آ رہے ہو۔ اگر ممکن ہو، تو ایک بار آؤ۔ میں تمہارے دیدار کے انتظار میں بیٹھا ہوں۔

اور اگر آؤ، تو بابا اسلم اور ماں شارل کو اپنے ساتھ ضرور لانا۔ انہیں میرا سلام دینا۔ اور ماں شارل سے کہنا: “ہیبو تمہارے دیدار کے انتظار میں ہے۔”

مجھے تم دونوں سے بہت باتیں کرنی ہیں۔ بہت سے قصے سنانے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔