‏بدلتے کردار اور ارتقائے فکر – مہر شنز خان بلوچ

110

‏بدلتے کردار اور ارتقائے فکر

‏تحریر: مہر شنز خان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بدلتے سماجی رسوم، سائنسی ترقی، ارتقائی سیاست اور مذہبی گرفت کے مختلف اشکال سے ہوتا ہوا فکر ہمیشہ خود کو بچاتا ہوا کسی نہ کسی طریقہ کار سے دنیائے سیاست میں اپنا کردار ادا کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ کوئٹہ کی جامعہ بلوچستان سے لیکر نواب مری کی حقِ توار سرکل تک اور بی ایس او کی تقریبات و جلسے جلوسوں سے ہوتا ہوا یہ سوچ بی وائی سی کے روڈ بلاک تک آ پہنچا ہے۔ حالانکہ لوگ بدلتے گئے، وقت بدلتا گیا، پالیسیاں بدلتی گئیں، سامراجی سوچ اور حکمرانی کی چاہ جوں کا توں رہی۔

یہی وجہ تھی کہ فکرِ انقلاب، جمہوری سیاست اور قانونی پاسداری کے ماننے والے تب بھی موجود تھے اور آج بھی موجود ہیں۔ کبھی آمریت کی چھاپ نے انہیں دھیما کیا تو کبھی ریاستی مراعات کی چاہ نے انہیں نام نہاد قانونی دائرے میں رہ کر اپنے ضمیر کو قومی دھارے میں رہنے کے نام پر جھنجوڑ کر روکے رکھا۔

لیکن ان سب ریاستی جبر، اپنوں کے بکنے، دلالوں کی مراعاتی محبت اور زندگی کی آسائشوں نے بلوچستان کو قوم دوست اور انسانیت پرور لیڈران پیدا کرنے سے نہیں روکا۔ بلوچستان میں شاید نفاذ کردہ ریاستی فارمل ایجوکیشن حاصل کرنے والے ڈگری یافتہ کم ہی ہوں لیکن دنیائے انقلاب اور اپنے قومی اصولوں کی چھاپ رکھے ہوئے شعور سے لبریز نوجوان، بوڑھے اور عورتوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کے بدلتے رخ اور سامراجی بدلتے پینترے کبھی بھی ان انقلاب پرور اور انسانیت دوست لیڈران کو چھپانے میں ناکام رہے ہیں۔

بلوچستان میں آئے روز ایک واقعہ ہوتا ہے جس کے تھانے بانے ریاستی اداروں، عدم سیاسی استحکام، ادارتی نااہلی، سماجی سکوت اور ریاستی رٹ کی عدم موجودگی سے جا کر ملتے ہیں۔ وفاقی اکائی ہونے کے باوجود بلوچستان ہمیشہ سے چند مراعات دہندہ سیاسی پارٹیوں، قبائلی لیڈران، ڈرگ لارڈز (منشیات فروش مافیا) اور قبضہ مافیا کے مفادات کی نظر کی گئی ہے۔ بلوچستان میں ڈغاری کے واقعے کو بجائے ایک قانونی نقطہ نظر سے دیکھ کر ریاست اپنی رٹ کے متعلق اپنی پالیسیوں کو نظر ثانی کرتی، اس قتل کو بلوچ قوم کے ساتھ جوڑ کر پورے سماج پر حملہ آور ہوا۔ سرفراز بگٹی سمیت پاکستان کے دوسرے اعلیٰ عہدیداران اس معاملے کو بنا تحقیق کیے بغیر نکاح کا غیر ازدواجی رشتہ قرار دیکر جائز قرار دینے لگے۔

ریاستی ادارے بلوچستان میں سیاست کو کچلنے کے لیے اس حد تک گر چکے ہیں کہ انہوں نے ایک قتل کو (جس کے محرکات جو بھی ہوں اور وجہ جو بھی ہو وہ ایک الگ بحث ہے) اپنے مفاد میں موڑ کر بلوچ سماج کو ایک درندہ صفت، جاہل اور ان پڑھ ظاہر کرنے کی کوشش کی۔

یہ واقعہ اس ناگزیر عمل کی طرف ایک اشارہ ہے کہ ناپید اور غیر ضروری رسوم اور قومی رواج کو ختم کرنے کے لیے سماج، بشمول سیاسی لیڈران، قومی رہنماؤں، سول سوسائٹی اور طلبہ سیاستدان ایسے غیر انسانی رسوم کے خلاف نہ صرف اٹھ کھڑے ہوں بلکہ وہ ان کے خاتمے کے لیے اپنی آنے والی نسلوں کو بیدار کریں۔ اور ایسی سوچوں کے خاتمے کے لیے سیاسی اور سماجی کارکنان بھی ہمیشہ پیش پیش رہی ہیں۔ چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہوں، کسی بھی ذی شعور اور بیدار سماج و قوم کی طرح بلوچ بھی پہلے سے چوکس اور تیار رہی ہے۔ حالانکہ ایک قبائلی گرفت سے جکڑی قوم کے لیے یکدم پدر شاہی نظام کا مقابلہ کرنا شاید ناممکن ہو لیکن اسی سرزمین نے لمہ ء وطن کریمہ اور ڈاکٹر شلی جیسی بیٹیوں کو جنم دیا جنہوں نے نہ صرف خود پدر شاہی نظام کو چیلنج کیا بلکہ سیاسی اور شعوری لحاظ سے دیگر کمزور اور بے آواز خواتین کو ان ناپید رسوم کے خاتمے کے لیے تیار کرتی آئے ہیں۔

اگرچہ بلوچستان میں ریاستی کریک ڈاؤن بتدریج چلتی آرہی ہے، بلوچستان میں نہ صرف آزادی پسند سیاسی کارکنان، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور طلبہ سیاستدانوں کے خلاف ریاستی جبر کا دور دورہ ہوا ہے بلکہ ہر اس شخص کو اس ریاست نے اپنی ڈکشنری میں ریاست مخالف قرار دیا ہے جس نے سماجی برائیوں کو روکنے کی بات کی ہو، اسکولوں میں داخلوں کو بڑھانے اور تعلیم کے فروغ کے لیے لٹریری فیسٹیولز کے انعقاد کا سوچا ہو۔

کبھی بلوچستان کے دل شالکوٹ کی گلیوں سے نواب مری کی صدا پر آزادی کے دیوانے آجوئی کے گیت گنگناتے تھے تو آج انہی گلیوں میں میر احمد اور منہاج کی آواز میں بلوچستان گاتا ہے۔ ہر دور و ہر عہد میں، چاہے کردار جو بھی ہوں، مرد ہوں یا عورت، جنگجو ہوں یا سیاستدان، سماجی کارکن ہوں یا انسانی حقوق کے علمبردار، انسانیت دوست ہوں یا قانون دان ہوں ان کا ایک ہی مقصد رہا ہے اور وہ انسانیت کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور بنیادی اور شخصی آزادی ہے۔ اور جب بھی شخصی آزادی کی بات ہوتی ہے تو وہ قومی آزادی اور قانونی حکمرانی سے جڑی ہوئی چیز ہے۔

یہی وجہ رہی ہے کہ جب بھی شخصی آزادی کے لیے سیاسی تنظیم یا مسلح تنظیمیں جد و جہد کرتی ہیں تو وہ قومی آزادی کو سب سے زیادہ مقدم رکھتی ہیں۔ کیونکہ وہ اجتماعی آزادی اور قومی واک و اختیار ہے جو عمرانی معاہدے کے تحت انسٹی ٹیوشنز کو اپنے اپنے وضع کردہ اختیارات سے تجاوز کرنے سے روکے رکھتا ہے۔

یہ سوچ و فکر کی انتہا ہے کہ وہ خود کو کسی نہ کسی حالت میں اور جابر سے جابر حکمران کے سامنے سرنگوں کرنے کے بجائے اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے کردار بدلتا ہے لیکن خود امر ہو کر انسانوں میں سے کچھ کو سیاسی کارکن، کچھ کو جنگجو اور کچھ کو انسانی حقوق کے نام پر اکسا کر زندہ رکھتا ہے۔

سردار خیر بخش مری کے انگریزوں کے سامنے سرینڈر کرنے سے انکار کرنے سے لیکر بشیر زیب و اللہ نذر جیسے مڈل کلاس طلبہ لیڈروں تک اور پندرہویں صدی کی بی بی بانڑی، بیسویں صدی کی بی بی گل بی بی (جو جنرل ڈائر کے خلاف پہاڑوں میں لڑتی رہیں) سے لیکر اکیسویں صدی کے ماہ رنگ، صبیحہ و ڈاکٹر شلی تک لیڈرشپ بھی شعور و فکر کی طرح اپنی ارتقائی شکل بدلتا ہوا سرداروں اور قبائلی رہنماؤں سے ہوتا ہوا مڈل کلاس رہنماؤں تک اور قبائلی جنگی خاتون کمانڈروں سے لیکر مڈل کلاس اور پڑھے لکھے طلبہ سیاستدانوں تک آ پہنچی ہے۔ یہ ارتقائی عمل صدیوں کی جدوجہد اور دہائیوں کے ظلم و بربریت کے تاریخی مار کو سہتے ہوئے کندن کی طرح ابھرتا ہوا نمودار ہوا ہے اور شعور و فکر ان کے بعد بھی جگہ اور کردار بدلتا ہوا سامراج سے دست و گریبان ہوتا رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔