کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری، یوسف قلندرانی کی فوری بازیابی کا مطالبہ

1

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے قائم احتجاجی کیمپ آج بروز منگل کوئٹہ پریس کلب کے سامنے 5915 ویں روز جاری رہا ۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیرمین نصراللہ بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ تنظیم کو شکایت موصول ہوئی ہے کہ 17 جولائی کو چیرمین یونین کونسل توتک اور قلندرانی قبیلے کے سربراہ علی محمد قلندرانی کے بیٹے میر یوسف قلندرانی کو حساس اداروں کے اہلکاروں نے پولیس کے ساتھ مل کر کراچی سے غیر قانونی طریقے سے حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔

انہوں نے کہا کہ 2010 میں بلوچستان کے علاقے توتک میں فوجی آپریشن کے موقع پر میر یوسف علی قلندرانی کے تین بھائیوں سمیت انکے خاندان کے سینکڑوں افراد کو فورسز نے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیا، جنہیں تاحال منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے۔

نصراللہ بلوچ نے کہا کہ میر یوسف قلندرانی سمیت دیگر افراد کی ماورائے قانون گرفتاری اور پھر لاپتہ کرنا صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی نہیں ہے بلکہ آئینِ پاکستان، بنیادی شہری آزادیوں اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی بھی کھلی توہین ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 9 ہر شہری کو “زندگی اور آزادی” کا تحفظ دیتا ہے۔ اسی طرح آرٹیکل 10 کے تحت کسی بھی شخص کو حراست میں لیے جانے پر اُس کے قانونی حقوق کی پاسداری لازم ہے، جس میں گرفتاری کی وجوہات سے آگاہ کرنا، جلد از جلد عدالت میں پیش کرنا اور وکیل تک رسائی جیسے بنیادی حقوق شامل ہیں۔ کسی شہری کو بغیر اطلاع، عدالتی اجازت یا قانونی جواز کے لاپتہ کرنا نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ فوجداری قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔

پاکستان ایک جمہوری ریاست کہلاتا ہے تو انسانی حقوق کے احترام کی پابند ہونا چاہیئے۔ جبری گمشدگیاں نہ صرف شہریوں کے بنیادی اعتماد کو مجروح کرتی ہیں بلکہ ریاست کے نظامِ انصاف اور آئینی اداروں پر سوالیہ نشان بھی کھڑا کرتی ہیں ۔

نصراللہ بلوچ نے مطالبہ کیا کہ میر یوسف علی قلندرانی سمیت تمام لاپتہ افراد کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے ۔

اس غیر قانونی اقدام میں ملوث عناصر کے خلاف شفاف اور قانونی کارروائی کی جائے۔

جبری گمشدگیوں کا مستقل سدباب کیا جائے اور ان کے خلاف انسانی اقدار کے عین مطابق جامع قانون سازی کو یقینی بنایا جائے۔

عدلیہ، انسانی حقوق کمیشن اور پارلیمانی ادارے اس عمل کا
نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داران کا تعین کریں۔

آخر میں نصراللہ بلوچ نے کہا کہ یہ مسئلہ کسی فرد واحد یا بلوچ قوم کا نہیں بلکہ پوری انسانی معاشرہ، انصاف کے نظام اور انسانی حقوق کے اداروں کے وقار کا ہے۔ خاموشی، صرف مظلوم کے نہیں، انسانی معاشرہ کے لیے زہر قاتل ہے۔ اسلیے اس انسانیت سوز ظلم کے خلاف پاکستان سمیت پوری دنیا کو بھرپور آواز اٹھانا چاہیے