کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے 25 سالہ بلوچ طالب علم زاہد علی کی پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کو 30 دن گزر گئے ہیں، لیکن تاحال اہلِ خانہ کو کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کی گئی۔
زاہد علی بلوچ کو 17 جولائی 2025 کو پاکستانی فورسز نے ان کے رکشے سمیت تحویل میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
واقعہ کے خلاف زاہد علی کے والدین و لواحقین کی جانب سے گذشتہ دو ہفتوں سے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنا دیے ہوئے ہیں جہاں کراچی سے سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے کارکنان ندا کرمانی و دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
لواحقین نے کہا زاہد کے والد عبد الحمید، جو کہ ہیپاٹائٹس کے مریض ہیں، شدید علالت کے باوجود کراچی پریس کلب کے باہر لگائے گئے احتجاجی کیمپ میں موجود ہیں انکے والد نے کہا ہے کہ جب تک بیٹے کی واپسی نہیں ہوتی، وہ کیمپ نہیں چھوڑیں گے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا ہے کہ زاہد کا کیس کراچی اور بلوچستان میں بلوچ نوجوانوں کو نشانہ بنانے والی جبری گمشدگیوں کی اُس منظم پالیسی کا حصہ ہے، جس کے خلاف انسانی حقوق کے حلقے مسلسل آواز بلند کر رہے ہیں۔
تنظیم نے کہا ہے کہ ہم طلبہ، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنان اور تمام باشعور شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ زاہد کے اہلِ خانہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے کیمپ میں شامل ہوں اور اُن کی محفوظ واپسی کا مطالبہ کریں۔