زندے سفر – بجار بلوچ

54

زندے سفر

تحریر: بجار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب خبر ملی کہ نظام جان کو دوسری بار رہائی نصیب ہوئی ہے جسے پاکستانی فورس، سی ٹی ڈی نے دوبارہ اغوا کر لیا تھا تو میں نے فوراً نازو کو خوشخبری دی۔ نازو اور اس کے گھر والے خوشی سے نہال ہوگئے۔

چند دن بعد میری نظام سے بات ہوئی۔ حال چال دریافت کیے تو اس نے بتایا کہ آئی ایس آئی اور ان کے مخبر اس کا تعاقب کر رہے ہیں۔ میں نے اسے تسلی دی “پریشان مت ہو، میں کچھ کرتا ہوں۔”

چار دن بعد پھر رابطہ ہوا تو میں نے مشورہ دیا کہ کچھ دنوں کے لیے شہر سے باہر چلا جائے۔ نظام مان گیا اور کوئٹہ چلا گیا۔ وہاں اس نے پڑھائی شروع کی، طلبہ تنظیموں سے جڑ گیا، دوست بنائے اور نظریاتی سرکلز کا حصہ بنتا رہا۔ انہی دوستوں میں ایک ساچان بھی تھا جو نظام کے لیے بھائی جیسا تھا۔

دو تین برس یونہی گزر گئے۔ نظام بلوچ سیاست میں سرگرم رہا۔ ایک دن لاپتہ افراد کے حق میں احتجاج کی کال آئی۔ نظام بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ شامل ہوگیا۔ پولیس پہلے سے ہی تعینات تھی، سڑک بند، اور آگے جانے کی اجازت نہ تھی۔ پولیس دھمکیاں دے رہی تھی کہ احتجاج ختم کیا جائے۔ تقریباً ایک گھنٹہ لواحقین اور پولیس کے درمیان تلخ کلامی ہوتی رہی، پھر لاٹھی چارج ہوا۔ گرفتاریاں ہوئیں، کچھ زخمی ہوئے، اور نظام کو بھی گرفتار کر کے جیل منتقل کر دیا گیا۔

سردیوں کے دن تھے۔ جیل میں نہ کمبل، نہ ہیٹر، نہ گرم کپڑے۔ قیدیوں کی انگلیوں کے نشان لیے گئے، ذہنی اذیت دی گئی، شناختی کارڈ نمبر، ایڈریس سب نوٹ کیے گئے۔ دو دن بعد تمام افراد کو رہا کر دیا گیا۔

کچھ دن بیتے۔ نظام کو ایک کال موصول ہوئی۔ دوسری طرف اردو زبان میں کہا گیا
“آئی ایس آئی کے لیے کام کرو۔”
نظام نے فون کاٹ دیا۔
روز کال آتی۔
“ہمارے لیے کام کرو، ورنہ تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو اغواء کر کے مار دیں گے۔”
دھمکیاں، بلیک میلنگ، دباؤ۔

ایک دن نظام نے ساچان کو سب کچھ بتا دیا۔ ساچان نے اسے دلاسہ دیا، حوصلہ دیا، کہا “انہیں نظر انداز کرو، اپنے مقصد پر قائم رہو۔”

کچھ مہینے بعد ساچان چھٹیوں کے بعد واپس ہوسٹل آیا۔ نظام نے اسے دیکھ کر گلے لگا لیا، رو پڑا۔ ساچان پریشان ہوا، پانی دیا، پوچھا “بھائی، کیا ہوا؟ کیوں رو رہے ہو؟”

نظام نے آنسو پونچھتے ہوئے بتایا کہ کیسے اس کے بھائی کو اغواء کیا گیا، کیسے روز اسے کال کر کے بلیک میل کیا جا رہا ہے، جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

ساچان خاموشی سے سب کچھ سنتا رہا۔ پھر پوچھا۔ “گڑا قربان نی انت پاسہ امر کین؟”
(قربان آپ کیا کہتے ہو کیا کریں)

نظام نے ساچان کی طرف دیکھ کر کہا
“یار کنے مش آ مون ایت…”
(یار، مجھے پہاڑوں پر بھیج دو۔)

ساچان نے کہا “نہیں، جذباتی ہو کر فیصلہ نہ لو۔ وہاں بھوک ہے، پیاس ہے، اپنے لوگوں سے دوری ہے، وہ سب کچھ ہے جو تم نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔ یہ فیصلہ جذبات سے نہیں، شعور سے لینا پڑتا ہے۔ ذہنی طور پر تیار ہونا ضروری ہے۔”

نظام تھوڑا خاموش رہا، پھر آہستگی سے بولا
“نہیں یار، میں جذباتی نہیں ہوں، یہ شعوری فیصلہ ہے۔ چار سال سے جانا چاہتا ہوں، مگر راستہ نہیں مل رہا۔”

ساچان نے اسے کچھ دن سوچنے کا کہا۔

دو دنسرکل کے بعد نظام اور ساچان واپس ہوسٹل آئے۔ نظام نے کہا “یار، میں تیار ہوں۔ آج کہو یا ایک سال بعد، میرا فیصلہ یہی رہے گا۔”

نظام کی آنکھوں میں ایک چمک تھی، ایک عزم “ریاست کی زیادتی، پنجاب کی حکمرانی، لوگوں کو لاپتہ کرنا، عورتوں کو سڑکوں پر گھسیٹنا، ماورائے عدالت قتل، شہیدوں کی بے حرمتی… ان سب کے بعد کیا میں خاموش بیٹھ سکتا ہوں؟ آج جاؤں یا کل، جانا تو ہے۔ تو کیوں نہ آج؟”

ساچان اٹھا، کندھے پر ہاتھ رکھا، اور کہا “ٹھیک ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ دن اور سوچو۔”

تیسرے روز ساچان آیا اور کہا “سامان اُٹھاؤ، چلو میرے ساتھ۔”

نظام سب سمجھ گیا، مگر پھر بھی پوچھا “یار، کہاں لے جا رہے ہو؟”

ساچان مسکرایا “تیری سیٹ پکی ہو گئی ہے۔”

نظام نے ساچان کو گلے لگا کر کہا “رخصت آف اوارن قربان…”

نظام اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔

کئی سال بعد نظام اور اس کے سنگت پہاڑیوں کی بلندی پر موجود تھے۔ ہلکی روشنی، نئی صبح کا آغاز، اچانک چاروں طرف سے فوج کا گھیراؤ، نظام نے واکی ٹاکی آن کی
“سنگتاک بیدار مریرے گیرہ ٹی اُن!”
(دوستو، جاگ جاؤ، ہم گھیرے میں آ چکے ہیں۔)
پہاڑوں کی خاموشی ایک دم سے ٹوٹ گئی۔ سرد ہوا میں گولیوں کی آواز گھلنے لگی، ہر طرف شور، گولیاں، صدا، اور مٹی اڑتی رہی۔

نظام کی نظریں اُفق پر تھیں، جہاں نئی صبح کی ہلکی روشنی پھیل رہی تھی۔ شاید وہ جانتا تھا کہ یہ اس کی آخری صبح ہے یا شاید وہ صرف روشنی کو سلام کر رہا تھا۔

کچھ ہی لمحوں میں وہ روشنی، جس کے لیے وہ پہاڑوں پر آیا تھا، وہ چمکنے لگی، ایسی چمک جو بندوقیں بجھا نہ سکیں، ایسی روشنی جو قید خانوں کی دیواریں توڑتی ہے، جو اغواء، دھمکی، زنجیروں، اور گولیوں سے نہیں مرتی۔

نظام خاموش ہو گیا، مگر پہاڑوں میں اس کی صدا گونجتی رہی۔
“سنگتاک بیدار مریرے گیرہ ٹی اُن!”

اور کہیں، کسی ویرانے میں، ایک اور نوجوان شاید یہی صدا سن رہا تھا، سوچ رہا تھا

“یار، کنے مش آ مون ایت؟”
(یار، کیا مجھے بھی پہاڑوں پر جانا چاہیے؟)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔