امریکی اقدام سے بی ایل اے پر دباؤ یا شہرت میں اضافہ؟

862
امریکہ نے بلوچستان کے سب سے بڑی متحرک اور منظم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی “بی ایل اے” اور اس کے فدائین حملے کرنے والی ونگ مجید برگیڈ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا ہے مگر اثر غالباً علامتی ہوگا۔
واشنگٹن کا یہ اقدام اسلام آباد کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور نئے تجارتی معاہدوں کے پس منظر میں سامنے آیا ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے گروہ کی مسلح سرگرمیوں پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
بی ایل اے کی مالی معاونت اور کارروائیاں ایسے نامعلوم چینلز پر مبنی ہیں جو امریکی پابندیوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے پیر کے روز جاری ایک بیان میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور اس کے فدائین حملے کرنے والی ونگ، مجید بریگیڈ، کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں (FTOs) کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان کیا۔
بی ایل اے جو پاکستان کے زیر انتظام بلوچستان میں ایک آزادی پسند مسلح تنظیم ہے، کو امریکہ نے 2019 میں اور برطانیہ نے 2006 میں کالعدم تنظیم قرار دیا تھا۔
اس نامزدگی کا مطلب کیا ہے؟
محکمہ خارجہ کے مطابق، ایف ٹی او فہرست میں شامل ہونے کے بعد:
•امریکہ کسی گروہ کی مالی معاونت کو روکنے اور دیگر ممالک کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دیتا ہے، جبکہ اسے عالمی سطح پر الگ تھلگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
•عطیات، مالی امداد اور کسی بھی معاشی لین دین سے روکا جاتا ہے۔
•اس اقدام سے عوامی آگاہی میں اضافہ ہوتا ہے اور دیگر حکومتوں کو بھی واشنگٹن کے خدشات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
•امریکہ میں کسی ایف ٹی او کو فنڈز، اسلحہ، تربیت یا بھرتی میں مدد فراہم کرنا وفاقی جرم ہے۔
•اراکین اور حامیوں پر سفری پابندیاں، ملک بدری اور امریکہ یا اس کے انسداد دہشت گردی کے شراکت دار ممالک میں اثاثوں کی ضبطی ہو سکتی ہے۔
کیا یہ بی ایل اے پر اثر ڈالے گا؟
سطحی طور پر اسلام آباد کے لیے یہ اقدام سفارتی کامیابی تصور کی جارہی، مگر عملی لحاظ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے بی ایل اے کی آپریشنل صلاحیت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
تنظیم کی بقا دو بنیادی وسائل پر منحصر ہے پیسہ اور افرادی قوت، اس کی مالی معاونت نہ تو امریکہ یا مغربی ذرائع سے آتی ہے نہ ہی باضابطہ بینکاری نظام سے بلکہ غیر قانونی سرگرمیوں سے حاصل ہوتی ہے۔
بی ایل اے کی مغرب میں کوئی نمایاں سیاسی موجودگی نہیں اور اس کے اراکین امریکہ یا یورپ کا سفر نہیں کرتے اس لیے سفری پابندیوں یا اثاثوں کی ضبطی کا اثر محدود ہے۔
2019 میں بھی اسی طرح کی نامزدگی گروہ کو کمزور نہ کر سکی اور اب مجید بریگیڈ کو فہرست میں شامل کرنے سے بھی کچھ خاص بدلنے کی توقع نہیں، بعض اوقات ایسے اقدامات کسی مسلح گروہ کی شہرت میں اضافہ کر دیتے ہیں اور اسے تنازع میں زیادہ نمایاں بنا دیتے ہیں۔
یہ اعلان اب کیوں؟
یہ اعلان اس وقت آیا ہے جب واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان ایک تجارتی معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت امریکی کمپنیاں بلوچستان میں تیل کے وسائل کی ترقی میں مدد کریں گی اور پاکستانی برآمدات پر محصولات کم کیے جائیں گے۔
یہ بھی وہ وقت ہے جب مبصرین کے مطابق امریکہ اور پاکستان کے تعلقات حالیہ برسوں میں بہترین دور میں ہیں پاکستان کی حکومت نے تو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے بھی نامزد کیا ہے۔
کچھ ماہرین کے مطابق یہ نامزدگی ایک سفارتی لین دین کا حصہ ہے جیسا کہ 2019 میں ہوا تھا جب ٹرمپ انتظامیہ نے بی ایل اے کو بلیک لسٹ کیا تھا اور پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے امن مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
علامتی یا حقیقی اقدام؟
تاریخ میں کئی مثالیں ہیں جہاں امریکہ نے ایسے اقدامات کو انسدادِ دہشت گردی کے حتمی ہتھیار کے بجائے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
امریکہ نے کبھی افغانستان کے حقانی نیٹ ورک کے رہنماؤں، مثلاً سراج الدین حقانی جو اب طالبان حکومت کے وزیر داخلہ ہیں عبدالعزیز حقانی اور یحییٰ حقانی پر کروڑوں ڈالر کے انعامات رکھے لیکن بعد میں یہ انعامات خاموشی سے ہٹا دیے گئے۔
اسی طرح شام میں امریکہ نے حیات تحریر الشام ایف ٹی ایس جو پہلے النصرہ فرنٹ کہلاتی تھی کو ایف ٹی او فہرست میں شامل کیا اور اس کے رہنما احمد الشراء المعروف ابو محمد الجولانی کی گرفتاری پر 1 کروڑ ڈالر انعام رکھا لیکن اس سال کے آغاز میں یہ انعام اور ایف ٹی او کا درجہ دونوں ختم کردیے گئے۔
یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ ایسی نامزدگیاں اکثر علامتی ہوتی ہیں اور بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی مفادات سے جڑی ہوتی ہیں اور چونکہ بی ایل اے نہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں سے فنڈز حاصل کرتا ہے اور نہ ان کی حمایت اس لیے اس اقدام سے طویل مدتی رکاوٹ کی امید کم ہے۔
بڑا منظرنامہ
پاکستان کے لیے یہ اقدام ریاستی بیانیے کو مضبوط کرتا ہے کہ بی ایل اے ایک مقامی سیاسی تحریک نہیں بلکہ علاقائی استحکام کو نقصان پہنچانے والا دہشت گرد خطرہ ہے مگر بلوچ مسلح تنظیموں کے لیے یہ ان کی اہمیت کی توثیق کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ دہائیوں سے جاری تنازع میں ایک نمایاں فریق ہیں۔
بلوچستان کے پہاڑوں اور سرحدی علاقوں میں، جہاں واشنگٹن کی پابندیوں کی فہرست کا کوئی اثر نہیں اصل جنگ بدستور زمین، وسائل اور سیاسی اختیار پر لڑی جاتی رہے گی چاہے امریکہ کوئی نامزدگی کرے یا نہ کرے۔