میں بابا سے نہیں مل سکا – آفتاب بلوچ

85

میں بابا سے نہیں مل سکا

تحریر: آفتاب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سفرِ آزادی ہمیشہ گراں سر و بیش بہا چیزوں کا قربانی پسند کرتا ہے سب کچھ قربان کرنے کے بعد جب آزادی مل جائے تو تب پتا چلتا ہے کہ آزادی کتنی عظیم نعمت ہے۔ میرے نزدیک بابا ایک چیز نہیں بلکہ ایک فلسفہ ہے وہ فلسفہ جسے دنیا کی کوئی طاقت بھی شکست نہیں دے سکتا وہ فلسفہ جس کے آگے افلاطون کا مثالی ریاست بھی بے بس ہو جائے گی وہ فلسفہ جس کے آگے رابرٹ اوپن ہائمر کے ایٹم بم بھی کام کرنا چھوڑ دے گا بابا کا فلسفہ ایورسٹ کی طرح اونچا اور سمندر کی طرح اتنا گہرا تھا کہ اب کبھی کوئی بھی وہاں پہنچ نہیں سکتا۔

ایک دن اچانک بابا (امیر) کے نیٹورک کے ایک سنگت نے مجھ سے حال احوال کیا اُنہوں نے مجھے کچھ سامان لانے کو کہا میں نے اُن کو منع کرنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ انہی نوجوانوں کی وجہ سے آج ایک ایٹمی طاقت ہمارے بچوں، بوڑھے ماں باپ سے ڈرتی ہے اور ہم گھر میں آرام سے سوتے ہیں اور یہی نوجوان سرد راتوں کو پیرا دینے کیلئے اپنا سینا تان کر پہاڑ کے ایک چوٹی پر وطن کے غم دل میں لے کر کھڑے رہتے ہیں نہ اُن کو اپنے گھر کے غم نہ والدین کی یادیں نہ کہ اُنہیں دوسری ضروریات کے سامان بس ایک فلسفہ لے کر ایک بندوق کے ساتھ کوہ البرز کی طرح مضبوطی سے پہرہ دے رہے ہوتے ہیں۔ میں نے سنگت سے پوچھا کہ سامان کب، کیسے اور کہاں لانے ہیں؟ تو اس نے کہا کہ تھوڑا صبر کرو آپ کو بتائیں گے کہ سامان ہمیں کیسے اور کہاں لا کر دینے ہیں، میں نے اوکے کر دیا تو یہاں سے رابطہ کٹ گیا۔

پھر وہی سنگت لائن میں آیا اور کہا کہ میں نے تمہارا نمبر واجو کو دے دیا ہے وہ خود آپ سے رابطہ کریں گے۔ میں نے پوچھا کہ واجو! واجو کون ہے؟سنگت نے جواب دیا کہ بابا, ہمارے نیٹورک کا زمہ دار ہے، تو میں نے کہا صحیح ہے۔

کچھ دن بعد ایک نمبر سے مجھے ایک میسج موصول ہوئی۔ امیر (بابا) نے پہلے سلام کیا بعد میں کہا کہ مجھے یہ نمبر فلاں سنگت نے دیا تھا۔ میں پہچان گیا تو میں نے بھی خیریت دریافت کی، سنگتوں کے بارے میں پوچھا۔ میں بابا سے پہلی دفعہ بات کررہا تھا لیکن مجھے احساس ہوا کہ میں ایک عام آدمی سے بات نہیں کر رہا کیونکہ بابا کے باتوں میں مجھے بہت شائستگی اور شفقت دکھائی دی، کچھ دیر کیلئے ہم بات کرتے رہیں تو بابا نے کہا کہ سنگت میں اب شاید تھوڑا لائن سے باہر ہو جاؤ گا پھر کبھی ملاقات کریں گے انشااللّہ۔۔۔ (ھواریں گُڑا سنگت) بابا نے کہا۔

جب میں نے اپنا جواب دیا تو دیکھا کہ وہ آف لائن ہوگیا تھا۔ کچھ دن گزرنے کے بعد واپس وہی سنگت نے میسج بھیجا اور کہا کہ بابا نے تم سے رابطہ کیا تھا؟ میں نے کہا جی ہاں۔ تو پھر سنگت نے کہا کہ کل اتنے بجے فلاں جگہ سامان لے کر آجاؤ ہم انتظار کرینگے۔

دوسرے دن میں سنگت کے بتائے گئے جگہ و وقت پر پہنچا، دیکھا کہ سنگت اس مقام پر کھڑا ہے تو میں سمجھ گیا کہ میرا انتظار کر رہا ہے۔ ہم پہاڑوں کے اندر چلے گئے کچھ دیر بعد ہم ایک جگہ رُک گئے، میں نے پوچھا کہ یہی اُوتاگ (کیمپ) ہے تم لوگوں کا؟ سنگت نے کہا نہیں بس تھوڑا صبر کرو۔ باقی سنگت آرہے ہیں۔ دور سے دو سنگت ہماری طرف آتے نظر آرہے تھے آدھے گھنٹے کے بعد دونوں سنگت قریب پہنچے میں بھی آگے گیا سلام دعا کیا اور ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ میں نے پوچھا کہ بابا نیں آئے ہیں؟ تو سنگت نے جواب دیا کہ نہیں۔ میں خاموش ہوگیا کیونکہ مجھے بابا سے بھی ملنا تھا۔۔! ہم تقریباً تین گھنٹے تک بیٹھے ہنسی مذاق بہت ہوئی اُن میں سے ایک سنگت نے کہا کہ سنگت اب تم شام ہونے سے پہلے نکلو کہ پھر پہاڑوں میں کئی پھنس یا کہ گم نہ ہوجاؤ۔ میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنے اوتاگ تک کیوں لے کر نہیں گئے مجھے بابا سے بھی ملنا تھا۔ تو سنگت نے مُسکراتے ہوئے کہا کہ تم رجسٹرڈ ساتھی نہیں ہو نا اس لئے ہم آپ کو وہاں نہیں لے جا سکتے. تو میں نے بھی ہنستے ہوئے کہا کہ یار تنظیم نے اب رجسٹریشن کب سے شروع کی ہوئی ہے سنگت ہنسنے لگے تو میں نے کہا کہ اب میں رخصت کرتا ہو ایک تو میں یہاں نیا ہوں مجھے راستوں کا بھی علم نہیں ہے، بابا سے تو میں مل نہیں سکا لیکن ان کو میں گلے لگا کر رخصت کیا۔

تقریباً ایک مہینہ بعد مجھے اچانک بابا سے ایک کام پڑ گیا تو میں نے میسج کیا، اُسی دن بابا نے جواب بھی دیا اور میرے خیریت دریافت کی۔ میں نے کہا کہ ایک کام ہے تو بابا نے شائستگی اور پیار سے کہا جی بولو سنگت کیا کام ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے کچھ انفارمیشن دینے ہیں تو بابا نے پھر کہا کہ بولو سنگت، میں سارے ڈیٹیلز بتائے تو بابا نے دل چھونے والا جواب دیا،” سنگت ہم نہیں چاہتے کہ ہم اپنے بلوچوں کو بے گناہ ماریں۔” واقعی پکی انفارمیشن ہے، بابا نے پوچھا۔ جی سنگت فلاں سنگت سے بھی کنفرم کر لو وہ سنگت بھی جانتا ہے، میں نے جواب دیا۔

ٹھیک میں اُس سے کنفرم کر لیتا ہوں پھر بتاتا ہوں، بابا نے کہا۔ بات کرتے کرتے مجھے یوں لگنے لگا کہ جیسے میں ارسطو کے اکیڈمی لائیسیم میں بیٹھ کر ارسطو سے فلسفہ سیکھ رہا ہوں کیونکہ بابا اپنی ہر بات چن کر اور فلسفیانہ انداز میں کر رہا تھا۔ اسی طرح ایک سرمچار کیلئے ہر وقت موبائل کے ساتھ لگا رہنا غیر ذمہ داری کی زمرے میں آتا ہے تو شاید بابا خود کو غیر ذمہ داری کے زمرے میں نہیں ڈالنا چا رہا تھا تو حسبِ معمول سنگت نے کہا کہ پھر کبھی بات ہوگی۔

اُس وقت کے بعد بابا پھر دو بارہ آن لائن نہیں آیا مجھے بابا کو ایک اہم میسج بھی دینا تھا بہت کوشش کی بابا سے رابطہ کر لوں لیکن رابطہ نہیں ہوا. میرے وہم و گمان میں بھی نا تھا کہ میں بابا کو بس براس کے شیئر کردہ فوٹو میں دیکھوں گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔