حقیقت کا افسانہ – سفرخان بلوچ (آسگال)

289

حقیقت کا افسانہ

تحریر: سفرخان بلوچ (آسگال)

دی بلوچستان پوسٹ

دن کے دوسرے پہر کا سورج اپنے آخری سفر پر تھا۔ فضا میں بارود کی بو تہر رہی تھی، اور فضائیں گولیوں کی ترتراہٹ سے لرز رہی تھیں۔ دو گھنٹے بیت چکے تھے اس شدید جنگ کو شروع ہوئے۔ آسمان پر راکٹ لانچرز کی گرج، زمین پر کلاشنکوف کی چنگھاڑ، اور درمیان میں دشمن کے مورچوں پر قابض ہوتے ہوئے بلوچ سرمچار ہر سمت سے کامیابی کی صدائیں آ رہی تھیں۔

چاروں اطراف دشمن کے کیمپ پسپا ہو چکے تھے۔ مورچوں پر قبضہ جمانے کے بعد، سرمچار دشمن کے اسلحے کو اپنی تحویل میں لے رہے تھے۔ تبھی سامنے تین دشمن اہلکار نمودار ہوئے، ہاتھوں میں بندوقیں، آنکھوں میں خوف، کمانڈر نے اشارے سے انہیں “ہینڈز اپ” کا اشارہ دیا۔ مگر گولیوں کی ایک بوچھاڑ نے زمین کے سینے کو چیر دیا، ایک سرمچار گرتے گرتے اپنے ہونٹوں پر “آزادی” کا ترانہ چھوڑ گیا۔

یہ سب اچانک نہیں ہوا تھا۔ اس سے کچھ دن پہلے، سرمچار اپنی پوزیشنوں پر موجود تھے، مکمل تیار، انگلیاں ٹریگر پر، بس کمانڈر کے ایک اشارے کی دیر تھی۔ مگر پھر اچانک وائرلیس پر آواز آئی “منصوبہ منسوخ… فوراً نیچے اُتر آؤ۔”

کسی نے سوال نہیں کیا، کسی نے وجہ نہیں پوچھی، حکم کی تعمیل ہوئی، اور سب خاموشی سے واپس اپنے ٹھکانوں کی طرف لوٹ گئے۔ بعد میں معلوم ہوا، کمانڈر نے منصوبہ اس لیے منسوخ کیا تھا کہ ایک گروہ کی پوزیشن پہاڑ کے پیچھے کمزور تھی، اگر آگے بڑھتے تو جانی نقصان کا اندیشہ تھا۔ وہ ایک تجربہ کار کمانڈر تھا۔ دشمن کو ہرانا تھا، مگر اپنے ساتھیوں کو کھونا نہیں تھا۔ چند دنوں کے بعد، یکم اگست کی تاریخ طے کی گئی۔ کیمپس، سرمچار، گولہ بارود، راشن، سب تیاریاں مکمل تھا۔ جنگی حکمت عملی نئے سرے سے ترتیب دی گئی تھی۔

ایک ویران پہاڑی کے بیچ، ایک عارضی کیمپ میں عصر کے وقت کمانڈر نے تمام سرمچاروں کو جمع کیا۔ زمین پر ہاتھ سے بنایا ہوا کیمپ کا نقشہ بچھایا، انگلی سے ہر پوزیشن دکھائی: “یہ مرکز ہے، یہ دشمن کی مرکزی چوکی… اس طرف دو قریبی کیمپ ہیں، جو کسی بھی وقت کمک بھیج سکتے ہیں۔”

دو دستے ان دونوں اطراف کی مدد روکنے کے لیے مقرر کیے گئے۔ ہر سرمچار کو بتایا گیا کہ کب، کہاں، اور کیسے آگے بڑھنا ہے۔ کمانڈر کی آواز میں فولاد کا وزن تھا۔

بریفنگ ختم ہوئی۔ سب ایک دوسرے کو گلے لگا رہے تھے۔ کچھ ہنس رہے تھے، کچھ چپ تھے۔

شام کو، جب سورج پہاڑوں کے پیچھے چھپنے لگا تو موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں گرد اُڑاتے ہوئے منزل کی جانب روانہ ہوئیں۔ ہوا میں اڑتی دھول جیسے آزادی کے خوابوں کو پیغام دے رہی ہو۔

کچھ فاصلے پر، سرمچار اپنی گاڑیاں اور موٹر سائیکل روک کر اپنے اپنے مورچے سنبھالنے لگے۔ دشمن بے خبر، خاموش، اپنے خیموں میں غافل بیٹھا تھا۔

کمانڈر نے وائرلیس پر آخری بار پوچھا
تمام پوزیشنز تیار؟
جواب آیا، تیار

کمانڈر نے آہستہ سے اپنی کلاشنکوف کا چیمبر کھینچا، ایک آنکھ موندی، اور دور مورچے پر موجود دشمن کو تاکا، شہادت کی انگلی ٹریگر پر ٹھہری، اور دل میں ایک آخری ندا گونجی “اے شہادت! آج گواہ رہنا۔ گولی چلی، پہلا دشمن زمین پر گرا، جیسے پہاڑوں نے اپنے سینے پر خراش محسوس کی ہو۔ اسی لمحے وقت نے اپنا رخ بدلا، خاموشی کی چادر چاک ہو گئی، اور فضا میں گولیوں کا طوفان مچ گیا۔

پہاڑوں نے گرجتے ہوئے گولوں کی گونج لوٹی، جیسے صدیوں کی نیند سے جاگتے ہوئے جنات چیخنے لگے ہوں۔ راکٹ لانچرز کی زقند سے آسمان پر آگ کے پھول کھلنے لگے، اور زمین دھماکوں کی دھڑکن سے کانپنے لگی۔ گرد و غبار کی دبیز چادر نے سورج کو چھپا لیا، اور سیاہی میں لپٹے پہاڑوں کے دامن سے آتش فشاں پھوٹ پڑے۔ ہر سمت ایک وحشیانہ موسیقی تھی، بارود کی دھن، خون کی تال، اور چیختی ہوئی للکاروں کا ساز سرمچار ہوا میں گھلتے دھوئیں کو چیرتے ہوئے دشمن کی صفوں میں اترے، جیسے قہر کا مجسمہ ہوں۔

دشمن کی صفیں تتر بتر ہو گئیں۔ ان کے ہونٹوں پر بدحواسی، آنکھوں میں اذیت، اور قدموں میں لرزش تھی۔ اُن کے مورچوں سے اٹھتا ہوا دھواں اس بات کی شہادت دے رہا تھا کہ اب شکست محض ایک وقت کا سوال ہے۔ لیکن لڑائی ایک لمحے میں نہیں ٹوٹتی، وہ بتدریج سسکتی ہے، کچلی جاتی ہے، اور پھر دم توڑتی ہے۔

چار گھنٹے بیت چکے تھے۔ وقت اپنے زخم چاٹ رہا تھا۔ فضا میں اب بھی گولیوں کی ترتراہٹ تھی، مگر وہ شور اب یکسانیت اختیار کر چکا تھا، جیسے کسی اذیت ناک ساز کا آخری نغمہ، کچھ مقامات پر دشمن نے مزاحمت کی کوشش کی۔ مگر سرمچار پہلے ہی ان راہوں پر گھات لگا چکے تھے۔ ان کے نشانے بجلی کی مانند تھے، ان کے حملے برق رفتار، اور ان کے قدموں میں استقامت پتھروں کی مانند، ایک پہاڑی کے عقب سے دشمن کی کمک پہنچی، گاڑیوں کی ایک قطار، مگر جیسے ہی پہاڑی گھاٹی سے وہ نکلے، فضا میں ایک دھماکہ گونجا، ایک راکٹ ان کے درمیان پھٹا، اور لمحوں میں وہ مقام بارود کی بھٹی بن گیا۔

دشمن سپاہی جنہوں نے زمین پر اترنے کی جرات کی، وہ بارش کے قطروں کی طرح گرتے گئے۔ کچھ نے بھاگنے کی کوشش کی، مگر ان کے قدم زمین نے جھکڑ لیے۔ وادیوں میں اڑتی ہوئی خاک، گولیوں کی سرسراتی ہوئی پکار، اور دھماکوں کی گرج جیسے قدرت نے خود اس معرکے کی قیادت سنبھال لی ہو۔ زخمی دشمن چیختے، بلبلاتے، زمین پر لوٹتے، اور اپنی ہی آخری ہچکیوں میں مدفون ہو جاتے۔

آسمان پر شام کی سرخی اب خون آلود غروب کا روپ دھار چکی تھی۔ سرمچار مورچوں پر کھڑے تھے، جیسے پہاڑوں کے تاج پر ایستادہ عزم ان کے چہروں پر تھکن کے بجائے سکون کی لکیر تھی، جیسے وہ جانتے ہوں کہ آج وہ تاریخ کے سینے پر ایک مستقل زخم چھوڑ آئے ہیں۔

جب دشمن کی آخری فائرنگ بھی دم توڑ گئی، تو ایک گہری خامشی وادیوں میں اتر آئی۔ صرف دھوئیں کی ہلکی لپٹیں، جلے ہوئے بارود کی مہک، اور زمین پر بکھرے وجود اس معرکے کے گواہ تھے۔ سرمچار اپنے زخمی اور شہید ساتھیوں کو سنبھالتے، ان کے وجودوں کو اپنے کندھوں پر اٹھائے، ایک ناقابلِ شکست وقار کے ساتھ واپس لوٹے۔ اُن کے پیچھے دشمن کا کیمپ تھا۔ جلتا ہوا، ٹوٹا ہوا، اور دھوئیں کی لپیٹ میں ڈوبا ہوا۔ ایسا منظر کہ خود فضا نے اپنی آنکھیں موند لیں، اور پہاڑ خاموش ہوکر رہ گئے۔

کمانڈر نے ایک آخری بار مڑ کر اُس جلتے کیمپ کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں کوئی آنسو نہ تھا، بس ایک آتشیں وعدہ جھلک رہا تھا۔ لبوں نے بس اتنا کہا “یہ شروعات ہے۔”

رات اپنی سیاہی کے بستر پر سو رہی تھی، مگر پہاڑوں کی نبض میں ابھی بھی جنگ کی لرزش باقی تھی۔ دشمن کے کیمپس، جہاں چند گھنٹے قبل غرور کے نعرے گونجتے تھے، اب خاکستر تھے؛ جلی ہوئی خیمہ گاہیں، مٹی میں گرا اسلحہ، اور خاموش لاشیں، سرمچار برق کی طرح ٹوٹے، اور آندھی کی طرح لوٹ آئے۔ یہ صرف فتح نہ تھی، یہ انتقام کا پورا کیا ہوا وعدہ تھا۔

کیمپ اب خالی تھا۔ دشمن کے قدموں کے نشان مٹی نے چاٹ لیے تھے، اور ان کی پوزیشنیں سرمچاروں کے ہاتھوں میں تھیں۔

ایک سرمچار، جس کی چھاتی میں دشمن کی گولی نے سوراخ تو کیا، مگر اُس کے نعرۂ آزادی کو نہ روک سکی۔ وہ گرا ضرور، مگر شکست نہ کھائی۔

جب جنگ ختم ہوئی، دھواں چھٹا، اور وادی نے سکون کا سانس لیا، تو سرمچاروں نے اس کے جسم کو خیمے سے باہر نکالا کسی نے کچھ نہ کہا صرف آنکھوں میں وہ شعلے تھے جو صرف وہی دیکھ سکتا ہے جو اپنے کسی کو مٹی کے حوالے کرنے جا رہا ہو۔

کمانڈر نے اشارہ کیا، اور لاش کو سبز کپڑے میں لپیٹ کر ان کا قافلہ، دشمن کی شکست کا پرچم بلند کیے، گرد اُڑاتا پہاڑوں کی سمت روانہ ہوا، اس خاموشی کے ساتھ جو صرف فاتحوں کی ہوتی ہے۔

راستے میں پہاڑوں کی کمر پر ایک سنگلاخ مقام آیا دھول سے اَٹا، خاردار جھاڑیوں سے گھرا، جہاں نہ کوئی گواہ تھا، نہ تماشائی، وہیں قافلہ رُکا۔ زمین سخت تھی، اور رات گہری، سرمچاروں نے اپنے ہاتھوں سے مٹی کھودی آہستہ، خاموش، مگر پتھروں کو چھیرتے جذبے کے ساتھ، شہید کا جسم زمین میں رکھا گیا۔ کمانڈر نے ایک پتھر اٹھایا، قبر کے سرہانے رکھا اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہا “یہ پہاڑ گواہ رہیں گے… یہاں ایک چراغ دفن ہے، جو اندھیروں میں بھی جلتا رہے گا۔”

سب نے خاموشی سے زمین پر ہاتھ رکھا۔ نہ بین، نہ شور، صرف مٹی کا ایک ٹیلہ، اور اس کے اوپر وقت کی خاموش مہریں۔

موٹر سائیکلیں پھر چل پڑیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی صبح کی پہلی روشنی، جو دور کہیں پہاڑ کی چوٹی پر ابھری تھی، اس مٹی پر پڑی جہاں ایک چراغ دفن تھا۔ اور وہ روشنی گواہ تھی کہ آج کی رات، بلوچ جیتا تھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔