اسلام آباد: لواحقین کا دھرنا 22 ویں روز جاری، خاموش تماشائی بننے کے بجائے اس اجتماعی مزاحمت کا حصہ بنیں۔ سمی دین بلوچ

98

بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے رہنماؤں اور جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کا اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا آج مسلسل 22ویں روز میں داخل ہو چکا ہے۔

بلوچستان سے آئے مظاہرین، جن میں خواتین اور بچے بڑی تعداد میں شامل ہیں، شدید گرمی، بارش اور ریاستی دباؤ کے باوجود پُرامن احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ان 22 دنوں کے دوران مظاہرین کو نہ صرف احتجاجی کیمپ لگانے کی اجازت نہیں دی گئی، بلکہ نیشنل پریس کلب جانے والی سڑک بھی بند رکھی گئی ہے، مظاہرین کو سڑک کنارے بیٹھنے پر مجبور کیا گیا ہے، اور اُن پر مسلسل نگرانی، دباؤ اور ہراسانی کا سلسلہ جاری ہے۔

آج جبری لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی صاحبزادی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی رہنما سمی دین بلوچ نے بھی کیمپ میں شرکت کی ہے۔ ان کی شرکت نے احتجاجی کیمپ میں موجود مظاہرین کے حوصلے مزید بلند کیے ہیں۔

مظاہرین دو بنیادی مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں:
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے تمام لاپتہ رہنماؤں کی فوری رہائی
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مکمل خاتمہ

مظاہرین نے انسانی حقوق کی تنظیموں، میڈیا اور سول سوسائٹی سے اپیل کی ہے کہ وہ اُن کی آواز بنیں اور اس ریاستی جبر کے خلاف ان کا ساتھ دیں۔

‏اس موقع پر سمی بلوچ نے کہاکہ ریاستی دارالحکومت میں جاری اس پُرامن احتجاج کو نہ تو اقتدار کے ایوانوں سے کوئی توجہ حاصل ہوئی، اور نہ ہی اربابِ اختیار کی جانب سے کوئی سنجیدہ ردعمل سامنے آیا، تاہم، ریاستی بے حسی اور مسلسل جبر کے باوجود، یہ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گرفتار رہنماؤں کی رہائی اور جبری گمشدگیوں جیسے سنگین انسانی المیے کے خلاف مسلسل سراپا احتجاج ہیں، اور اپنے مؤقف پر ثابت قدمی سے قائم ہیں۔

‏انہوں نے کہاکہ اسلام آباد میں موجود سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے کارکنان، طلبہ، سیاسی و سماجی رہنماؤں اور ضمیر رکھنے والے تمام افراد سے اپیل ہے کہ وہ اس احتجاجی دھرنے کا ساتھ دیں، اس میں شرکت کریں، اور اپنے وجود، آواز اور یکجہتی سے اس جدوجہد کو تقویت بخشیں۔

‏انہوں نے کہاکہ ہماری خاموشی ظلم کو تقویت دیتی ہے، اور ہماری شرکت مظلوموں کو حوصلہ۔ اب وقت ہے کہ ہم خاموش تماشائی بننے کے بجائے اس اجتماعی مزاحمت کا حصہ بنیں۔