شہید بابا جان: قوم کی مسکراہٹ، حوصلے کا چراغ – کمال جلالی

128

شہید بابا جان: قوم کی مسکراہٹ، حوصلے کا چراغ

تحریر: کمال جلالی

دی بلوچستان پوسٹ

کبھی کبھی لفظ خاموش ہوجاتے ہیں، اور دل اپنے اندر ایک ایسا طوفان سمیٹ لیتا ہے جو پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دے۔ آج میرے دل میں وہی طوفان شدت اختیار کرچکا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ “میرے دس دوست شہید نہیں ہوئے” تو شاید میں اپنے آپ سے جھوٹ بول رہا ہوں۔ کیونکہ بابا جان دس دوست کے برابر تھے ایسے دوست کو کھونا صرف ایک وجود کو کھونا نہیں، بلکہ اپنے دل، اپنی یاد، اور اپنی شناخت کے ایک حصے کو دفن کرنا ہے۔

وہ دوست، جو ماں کی آغوش جیسا سکون دیتے تھے، جو باپ کی شفقت جیسی رہنمائی کرتے تھے، جو بھائی کی طرح ہر درد بانٹتے تھے، اور جو استاد کی طرح ہمیں آزادی، انسانیت، اور قربانی کا سبق دیتے تھے،وہ بابا جان تھے۔

ان کی مسکراہٹ ایک پیغام تھی۔ ان کی ہر بات فکر سے لبریز تھی۔ اور ان کی بندوق میں گولی سے زیادہ نظریہ تھا۔

بابا جان صرف ایک جنگجو نہیں تھے، وہ ایک مکمل فکر، فلسفہ اور تحریک کا نام تھے۔ جس کی زبان سے الفاظ کم اور عمل زیادہ برستا تھا۔ وہ جب کسی کیمپ میں داخل ہوتے تو وہ کیمپ چاندنی سے روشن ہو جاتا۔ ہر دوست اُن کے آنے پر خوش ہوتا کیونکہ بابا جان ہر دل کی دھڑکن سے واقف تھے۔ کوئی غمگین ہو، کوئی تنہا ہوتا تو بابا جان اس کے دل میں امید کی چنگاری لگا دیتے۔

ان کے مذاق او مسکرے، ان کا “نورہ” کہہ کر پکارنا، ان کی مذاق سے بھرپور باتیں، ان کا حوصلہ دینا، سب کچھ روح میں نقش ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے وہ صرف انسان نہیں تھے، مکران کی روح تھے، جو ہر درخت، ہر پتھر، ہر پہاڑ میں اپنی موجودگی چھوڑ گئے ہیں۔

16 سال کی عمر میں جب دنیا خواب دیکھتی ہے، بابا جان نے بندوق اٹھا لی۔ دشمن نے آپ کی فیملی کو اذیتیں دی ٹارچر کیا لیکن کچھ بھی ان کے حوصلے کو توڑ نہ سکا۔ ان کا نظریہ صرف ان کی سوچ تک محدود نہیں تھا، وہ اپنی نسل کے لیے مشعل راہ تھے۔ ان کے اندر شہید جلال کی عظمت، شہید امیر کی بصیرت، اور شہید حاجز کے خون کی حرارت تھی۔

میں نے خود دیکھا کہ دشمن کے خلاف جب ہم ایک محاذ پر تھے، میں نے 150 گولیاں چلائیں۔ وہ غصے سے بولے: “ہر گولی قیمتی ہے! صرف گولیاں نہیں، ہدف بھی سوچو۔ میں نے بھی ایسے کیا تھا، اور جلال نے مجھے روکا تھا۔”

پھر مسکرا کر بولے: ” شاید میں شہید جلال جیسا بننے کی کوشش کر رہا ہوں، لیکن وہ اور جلال ایک ہی جیسے تھے۔”

بابا جان! میں نے کبھی آپ سے نہ کہا، لیکن آج کہتا ہوں: “آپ میں شہید جلال کی روح تھی۔ آپ اس سے کم نہ تھے، شاید کچھ پہلوؤں میں زیادہ بھی تھے۔”

تین ماہ کی جنگی مہم کے بعد جب ہم ایک گاؤں میں واپس آئے، تو وہاں کی ماؤں اور بچوں نے جو منظر پیش کیا، وہ ہمیشہ میرے دل میں رہے گا۔ ان بچوں نے اپنے خرچے سے بابا جان کے لیے تحائف اور میٹھائیاں رکھی تھیں۔ وہ بابا جان کے دیدار کو خدا کی طرف سے عطا کردہ نعمتِ سمجھتے تھے۔

اگر کسی ماں نے اپنے بچے کو شرارت پر مارا، تو بچہ روتے ہوئے یہی کہتا: “میں اپنے بھائی بابا جان کو بتاؤں گا۔” اگر کسی گھر میں تکلیف ہوتی، تو سب بابا جان کو یاد کرتے تھے کیونکہ وہ ہر ماں کے بیٹے، ہر بچے کے محافظ، ہر بزرگ کے سہارا اور ہر قوم دوست کے خواب تھے۔

جنگ میں صرف بندوق چلانا ہی کافی نہیں ہوتا، اصل جنگ سوچ، ایمانداری، ضبط اور رہنمائی کی ہوتی ہے۔ بابا جان نہ صرف خود جنگجو تھے، بلکہ دوسروں کو انسان بنانے والے جنگجو تھے۔ وہ ہمیں صرف نشانہ نہیں سکھاتے تھے، وہ ہمیں خود پر قابو، قوم سے محبت، اور شہادت کی عظمت سکھاتے تھے۔

وہ کہتے تھے “جو قوم دوست ہوتا ہے، وہی اصل جنگجو بنتا ہے۔ جنگ تو ہتھیار سے جیتتے ہیں، لیکن قوم کا اعتماد دل سے جیتا جاتا ہے۔ بابا کے لیے بلوچ قوم ایک قبیلہ نہیں، ایک مقدس امانت تھی۔ وہ صرف پہاڑوں پر نہیں لڑے، وہ گلیوں، گھروں، دلوں اور نظریات میں لڑے۔
جس کیمپ میں ان کا قدم پڑتا، وہ کیمپ صرف جنگی مقام نہیں ہوتا وہ علم کا مرکز، خلوص کی درسگاہ، اور حوصلے کا مورچہ بن جاتا۔

شہید بابا جان کی جسمانی موجودگی ختم ہوئی، لیکن ان کی سوچ، تربیت، اور محبت آج بھی زندہ ہے۔ وہ صرف ایک یاد نہیں، ایک مشعل ہیں جو مجھے اور ہم سب کو جلاتی رہے گی۔

میں آج بابا جان سے وعدہ کرتا ہوں میں شہید بابا جان جیسا بننے کی کوشش کروں گا۔ میں ان کے قدموں پر چلوں گا۔ ان کا نظریہ میری سانسوں میں بسا ہے۔”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔