سات سالہ بچے پر مقدمہ، اس کے قانونی پہلو – اسد بلوچ

61

سات سالہ بچے پر مقدمہ، اس کے قانونی پہلو

تحریر: اسد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کئی سال پہلے جب میں نے مقامی اخبارات کے لیے رپورٹنگ کا آغاز کیا تھا ایک دن فورسز نے رات گئے ہمارے گاؤں میں چھاپہ مارا۔ ایک گھر کا محاصرہ کیا گیا اور دو طرفہ مبینہ فائرنگ کے تبادلے میں گھر کے مکینوں میں سے ایک پندرہ سالہ کمسن لڑکا اور اس کی بہن زخمی ہوئے۔

سولہ سالہ نبیل ہوت کو بعد میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی۔ اگلے دن کے اخبار میں، میں نے بغیر کچھ سوچے سمجھے اس عدالتی فیصلے کی رپورٹ شائع کر دی اور اپنی طرف سے یہ بھی لکھ دیا کہ عدالت نے ایک کمسن ملزم کو عمر قید کی سزا دی ہے جو قانونی طور پر سوالات کا باعث بن سکتی ہے۔

اس رپورٹ کے اگلے دن اسی عدالت کی جانب سے مجھے پیش ہونے کا حکم دیا گیا۔ اگلے دن میں عدالت گیا تو جج صاحب نے بے حد احترام کے ساتھ مجھے اپنے پاس بٹھا کر اخبار دکھایا اور اس خبر کے بارے میں پوچھا جس کی میں نے تصدیق کی۔

جج صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آئینِ پاکستان کی کس شق میں لکھا ہے کہ سولہ یا پندرہ سالہ مجرم کو عمر قید نہیں دی جاسکتی؟ چونکہ مجھے جواب معلوم نہیں تھا اس لیے اپنی غلطی تسلیم کر لی جس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔

تقریباً ایک گھنٹہ مجھے اپنے پاس بٹھا کر جج صاحب نے مختلف موضوعات پر دلچسپ گفتگو کی۔ انہوں نے مجھے اپنے رشتہ دار صحافیوں کے بارے میں بتایا اور صحافت کے شعبے میں بہتر کام کرنے کی نصیحت کی۔ اس ملاقات میں جج صاحب نے نبیل ہوت کو سزا سنانے کے ایک خوشگوار پہلو سے بھی آگاہ کیا جو میں بیان نہیں کرنا چاہتا۔

یہ واقعہ مجھے کل اسی تربت میں ایک سات سالہ لڑکے صہیب احمد کی سی ٹی ڈی کے ہاتھوں دہشت گردی میں معاونت کے الزام میں درج ایف آئی آر اور انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیشی کی یاد دلا گیا جہاں معزز جج نے ملزم صہیب کو ایک لاکھ روپے کے مچلکوں پر ضمانت قبل از گرفتاری کا حکم دیا۔

اس بار میں نے تھوڑی تحقیق کے ساتھ یہ جاننے کی کوشش کی کہ آئینِ پاکستان ایک سات سالہ بچے پر مقدمے کے اندراج اور اس کی ضمانت کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ میں نے اس معاملے پر قانونی ماہرین اور وکلا سے بات کی جن کے مطابق پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی دفعہ 82 کے مطابق وہ بچہ جس کی عمر سات سال یا اس سے کم ہو مجرمانہ ذمہ داری کا حامل نہیں ہوتا۔ ایسے بچے کے خلاف کسی قسم کا مقدمہ دائر نہیں کیا جا سکتا۔

دفعہ 83 کے تحت اگر کسی بچے کی عمر سات سے بارہ سال کے درمیان ہو تو اس پر فوجداری مقدمہ اس صورت میں قائم کیا جا سکتا ہے جب عدالت کو یقین ہو کہ وہ بچہ ذہنی طور پر بالغ ہے اور اپنے فعل کی نوعیت کو سمجھتا ہے۔

پاکستان نے بچوں کے حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کا کنونشن (UNCRC) تسلیم کیا ہے جس کے مطابق ہر وہ فرد جس کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہو “بچہ” کہلاتا ہے۔

یو این سی آر سی (UNCRC) کی شق 7، 37 اور 40 کے مطابق بچوں پر مقدمہ درج کرنا غیر قانونی ہے۔

جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 کے تحت بچوں سے متعلق فوجداری مقدمات میں الگ اور خصوصی طریقۂ کار اختیار کیا جانا ضروری ہے تاکہ ان کے حقوق کا مکمل تحفظ کیا جا سکے۔ اس ایکٹ کے مطابق بچوں کو صرف بچوں کی عدالت میں ہی مقدمے کا سامنا کرنا ہوگا۔

جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 کے دفعہ 4 اور 6 کے تحت سات سال یا اس سے کم عمر بچے کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرنا قانونی طور پر ممنوع ہے اگر اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی بچے کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہو تو متعلقہ پولیس اہلکار یا افسر کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

اسی ایکٹ کی روشنی میں اگر سات سال یا اس سے کم عمر کسی بچے کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے تو عدالت کو JJS+ CrPC کے تحت اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسے مقدمے کو ابتدائی سماعت میں ہی مسترد کردے کیونکہ یہ قانون اور انصاف دونوں کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔

آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 199 کے تحت بچے کے والدین یا سرپرست متعلقہ اہلکاروں کے خلاف ہائی کورٹ میں آئینی درخواست Writ Petition دائر کر سکتے ہیں۔ اس درخواست کے ذریعے عدالت سے استدعا کی جا سکتی ہے کہ وہ آئینی حقوق کی خلاف ورزی پر متعلقہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے تاکہ ریاستی اختیارات کے غلط استعمال کو روکا جا سکے اور بچے کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

وکلا اور عدالتی امور پر دسترس رکھنے والے ماہرین کے مطابق، پاکستان میں سات سال یا اس سے کم عمر بچوں کے خلاف مقدمات کے اندراج سے متعلق عدالتی فیصلے نہایت کم تعداد میں رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ تاہم لاہور اور سندھ ہائی کورٹس نے مختلف مواقع پر اپنے فیصلوں میں اس امر پر زور دیا ہے کہ بچوں کے خلاف مقدمہ درج کرتے وقت ان کی عمر، ذہنی کیفیت اور قانونی اہلیت کا مکمل جائزہ لیا جانا چاہیے۔ البتہ بلوچستان سے اب تک ایسی کوئی عدالتی نظیر سامنے نہیں آئی۔

پاکستان کے آئین اور بچوں کے حقوق سے متعلق عالمی قوانین کے مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سات سالہ بچے کے خلاف قانونی طور پر فوجداری مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کسی صورت ایسا مقدمہ درج کیا جائے تو بچے کو پولیس کسٹڈی میں نہیں رکھا جا سکتا اور اس کا کیس بھی صرف بچوں کے لیے مخصوص عدالت (Juvenile Court) میں ہی چلایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عدلیہ یہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہے کہ آیا بچہ اپنی عمر، ذہنی حالت اور قانونی فہم کے اعتبار سے کسی مقدمے کا سامنا کرنے کے قابل ہے یا نہیں۔

صہیب خالد کے معاملے میں بظاہر سی ٹی ڈی (کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ) نے قانونی طریقہ کار اختیار نہیں کیا۔ نہ تو بچے کی ذہنی اور نفسیاتی حالت کا جائزہ لیا گیا اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ متنازعہ سوشل میڈیا پوسٹ درحقیقت بچے نے خود شیئر کی تھی یا نہیں۔ یہ بھی تحقیق نہیں کی گئی کہ آیا جس موبائل فون یا سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے وہ پوسٹ شیئر ہوئی وہ واقعی بچہ خود استعمال کر رہا تھا یا کوئی اور۔

معزز جج نے اگرچہ بظاہر انصاف کا تقاضا پورا کرتے ہوئے بچے کی قبل از گرفتاری ضمانت منظور کی، تاہم بہتر یہ ہوتا کہ وہ مقدمہ مکمل طور پر مسترد (quash) کر دیتے کیوں کہ JJS Act+CrPC عدلیہ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ ایسے غیر قانونی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی مقدمات کو خارج کر سکے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔